گزشتہ کچھ ہفتوں کے دوران بھارت اور پاکستان کے درمیان جو کچھ ہوا وہ بظاہر کسی ایکشن فلم کا حصہ لگ رہا تھا جو مودی کو اگلا الیکشن جتوانے کیلئے ڈائیرکٹ کی گئی ہو ۔ بلا شبہ اس سب میں مودی جی کی الیکشن مہم کا بھی حصہ تھا لیکن کیا بھارت اور بھارتی افواج کے سربراہان اتنے ہی بیوقوف ہیں کہ صرف مودی سرکار کو‘ جو اپنی حکومت کے آخری دنوں کو پورا کر رہی ہے‘ الیکشن جتوانے کی کوشش میں پاکستان کے ساتھ جنگ کے خطرے کو مول لیں گے ؟ یا اس سب میں انکے کچھ اور دور رس اہداف بھی تھے ۔ بھارت نے جو کچھ کیا وہ دراصل اسکی جنگی حکمت عملی جسے عرف عام میں ’’کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ کہا جاتا ہے کو ٹیسٹ کرنے کیلئے تھا۔ ستر کی دہائی سے 2004 تک بھارت کی پاکستان کے بارے میں جنگی منصوبہ بندی ’’ سندر جی ڈاکٹرائن‘ ‘ کے مطابق رہی۔ سندر جی ڈاکٹرائن کا بنیادی جز پاکستان آرمی کی کسی پیشقدمی کو روکنا تھا اور اسمیں سب سے اہم کردار بھارتی بری افواج کا تھا۔
2001 میں بھارت نے پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنایا اور ’’ آپریشن پراکرم‘‘ لانچ کیا جس کے مطابق جلد از جلد بھارتی سینا کو پاک بھارت بارڈر پر لا کر اس سے قبل کہ پاکستان کو سنبھلنے کا موقع ملے پاکستان پر حملہ کر دینا تھا لیکن خدا کے حکم سے ’’ آپریشن پراکرم‘‘ سخت ناکامی سے دوچار ہوا اور بھارت کو اپنی پانچ لاکھ سینا اور تین آرمرڈ ڈویژنز کو سرحد پر لانے کیلئے قریب قریب ایک ماہ کا وقت لگ گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اس دوران ’’ بارودی سرنگیں‘‘ بچھانے کے دوران جنگ کے ممکنہ آغاز سے قبل ہی بھارت کے کم از کم چار سو سورما مارے گئے۔ ’’ آپریشن پراکرم‘‘ میں اس غیر معمولی تاخیر کا نتیجہ میں میں پاکستان کو بھی اپنے تین لاکھ کے قریب فوج سرحد پر لانے کا وقت مل گیا ۔ اسکے بعد دس ماہ تک تو بھارتی فوج سوچتی رہی کہ اب وہ حملہ کرے یا نہ کرے اور آخرکار دس ماہ کے بعد بھارت نے فوج واپس بلا لی۔ آپریشن پراکرم کی ناکامی کے بعد بھارت کی جنگ کی حکمت عملی میں تبدیلی آنی شروع ہو گئی اور’’ سندر جی ڈاکٹرائن‘‘ 2004ء میں اپنے اختتام کو پہنچ گئی اور اسکی جگہ ’’ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ نے لے لی۔ اس نئی حکمت عملی کی بنیاد یہ ہے کہ بھارتی فوج حملے کا فیصلہ ہونے کے 48سے 72گھنٹے کے اندر اندر چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں ( جنھیں انٹیگریٹڈ بییٹل گروپس یا IBGs ) کہا جاتا ہے کئی جگہوں سے پاکستان پر حملے کریگی اور اس سے پہلے کہ پاکستان سنبھل سکے یا عالمی برادری کسی بڑی جنگ کو روکنے کیلئے سفارتی اقدامات کرے پاکستان میں اپنے اہداف حاصل کر لے گی۔ بھارتی منصوبہ سازوں کے خیال میں کیونکہ یہ حملے چھوٹی چھوٹی فوجی ٹکڑیاں ( یعنی IBGs ) کریں گی اس لیے ایک تو پاکستان انکی تیزی کے آگے سنبھل نہیں پائے گا اور دوسرا یہ کہ چھوٹے چھوٹے حملے ہونے کی وجہ سے پاکستان بھارت کیخلاف ممکنہ طور پر اپنے ایٹمی ہتھیار بھی استعمال نہیں کر سکے گا۔یہ الگ بحث ہے کہ بھارت اپنے اس خیالی پلائو پر حقیقی دنیا میں کتنا عمل کر سکتا ہے کیونکہ جب ہم زمینی حقائق کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اس قسم کے کسی اپریشن کی کامیابی کیلئے درکار ٹینک، وہیکل اور ہیلی کاپٹر اور فضائی طاقت بھارت کے پاس نہیں ہے۔ جیسے جیسے بھارت نے اپنی جنگی منصوبہ بندی تبدیل کی پاکستانی افواج اسکے خلاف جوابی حکمت عملی تیار کرلی گئیں۔ 2010 میں فوجی مشقیں ’’ عزم نو سوئم‘‘ دراصل اسی ’’ کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن‘‘ کیخلاف تیاریوں کی عملی مشقیں تھیں۔ اسکے ساتھ ہی ’’ النصر‘‘ میزائیل جس کی رینج صرف ساٹھ کلومیٹر ہے اور یہ ’’ ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار‘‘ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے بھارت کے اس خیالی پلائو کے تابوت میں گڑنے والا آخری کیل تھا۔
لیکن بھارت کو شاید یہ بات سمجھ میں نہ آئی اور مئی 2011 میں بھارت نے ’’وجے بھوا‘‘ اور پھر ’’سدھرشن شکتی‘‘ نامی جنگی مشقیں اپنی کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن کی تیاری میں ہی کی تھیں۔ یاد رہے اس نئی ڈاکٹرائن میں بھارت کی بری افواج کی بجائے حملے کی زیادہ تر ذمہ داری بھارتی فضائی افواج کے سر ہے۔ ساتھ ہی بھارت کا خیال ہے کہ پاکستان تنہا ہو چکا ہے اور عالمی برادری بھارت کا حملہ رکوانے کی کوشش نہیں کریگا ۔ اس سب کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان نے بھی اس بھارتی منصوبہ بندی کیخلاف جوابی حکمت عملی تیار کرلی۔ پاکستان کی جوابی حکمت عملی یا جنگی نظریہ ویسے تو 2004ء میں ہی وجود میں آنا شروع ہو گیا تھا لیکن آج اپنی موجودہ شکل میں یہ ’’ باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کہلاتا ہے۔ اس ڈاکٹرائن میں بدلتے ہوئے عالمی حالات اور زمینی حقائق کے مطابق پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں چند اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ سب سے پہلے یہ طے کر لیا گیا ہے کہ پاکستان کی اولین ذمہ داری پاکستان ہے نہ کہ افغانستان۔ افغانستان کے بارے میں Strategic Depth کی حکمت عملی ترک کر دی گئی ہے ۔ اور افغانستان کے ذریعے پاکستان کا دفاع کرنے کی بجائے آزاد اور خومختار افغانستان سے دوستانہ تعلقات کا فروغ ہماری پالیسی کا حصہ ہے ۔ ساتھ ہی اچھے اور برے طالبان کی بحث ختم کر دی گئی ہے اور یہ طے کر لیا گیا ہے کہ کہ دہشت گردی کسی کی بھی طرف سے ہو اور کسی بھی شکل میں ہو اسکا مکمل خاتمہ ضروری ہے اور یہ کہ طاقت کا استعمال صرف اور صرف ریاست کا استحقاق ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک سے دوستانہ تعلقات کی تجدید بھی اس پالیسی کا اہم جز ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ امریکہ کی جنگ یا مفادات کیلئے اب ہم نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا جس سے پاکستان کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس امریکی صدر ٹرمپ کے ’’ڈو مور‘‘ اور پاکستان مخالفت دشمنی پر کیے جانے والے ٹوئیٹ کے کچھ عرصہ بعد ہی امریکی دفتر خارجہ کو پاکستان کے بارے میں ’’ یو ٹرن‘‘ لینا پڑا اور اسکے بعد حال ہی میں ہونے والے امریکہ طالبان مذاکرات پاکستان کی مدد سے ہو رہے ہیں اور بھارت کا افغانستان میں کوئی سیاسی کردار جس کے لیے خود بھارت اور امریکہ نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تھی وہ حقیقت کا روپ نہیں دھار سکا ہے۔
بھارت کے بارے میں باجوہ ڈاکٹرائن واضح ہے۔ وہ یہ کہ بے شک اس وقت بھارت ہت دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے اور اپنے آپ کو علاقے کا چودھری سمجھنے لگا ہے لیکن جلد یا بدیر بھارت اس حقیقت کو سمجھ جائے گا کہ اسکی خود ساختہ چودھراہٹ پاکستان پر چلنے والی نہیں ہے اور یہ بھی کہ جنگ نہ تو کسی مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی دو ایٹمی طاقتیں مکمل یا محدود جنگ کی متحمل ہو سکتی ہیں۔ اور جیسے ہی اسکی سمجھ میں یہ بات آئے گی۔ اسکو باآلاخر مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر پاکستان کے ساتھ اپنے مسائل حل کرنے پڑیں گے۔ اس وقت تک پاکستان انتظار کے ساتھ ساتھ بھارت کی کسی بھی خوش فہمی کا مکمل اوربرابر کا جواب دیگاجس کا عملی مظاہرہ پچھلے ماہ دیکھنے کو ملا۔ پاکستانی حکمت عملی کی کامیابی کے نتیجے میں بھارت کا ’’ پائیلٹ پراجیکٹ‘‘ ہی مکمل ناکامی سے دوچار ہو گیا ۔ نہ تو پاکستان مکمل تنہائی کا شکار رہا اور عالمی طاقتوں کو بھارت کو سمجھانے کیلئے کردار ادا کرنا پڑا۔ ساتھ ہی بھارت کی فضائیہ حملہ اور دفاع ہر دو میدانوں میں مکمل طور پر ناکام ہو گئی۔ اب بھارت شاید کچھ برس تیاری کر کے دوبارہ کسی حماقت کی منصوبہ بندی کر رہا ہو گا۔