سی ٹی ڈی کو منی لانڈرنگ کے معاملات دیکھنے کا اختیار ،حسن، حسین اور بانی ایم کیوایم برطانیہ کودیئے گئے تحفے ہیں انہیں واپس لانا ہے: فوادچوہدری

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ڈی ٹی) کو منی لانڈرنگ کے معاملات دیکھنے کا اختیار دے دیا ہے اور اب منی لانڈرنگ کے کیسز کی جو تفصیل آئے گی اس سے ہوش اڑ جائیں گے۔

اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کابینہ نے منی لانڈرنگ کے حالیہ کیسز پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے کیونکہ ہم نے دیکھا ہے کہ شہباز شریف اور ان کے اہل خانہ نے کس طرح منی لانڈرنگ کی۔

انہوں نے کہا کہ سابق حکمرانوں کے یہی کرتوت تھے جس کی وجہ سے پاکستان کو آج ایک اقتصادی بحران کا سامنا ہے، ڈالر میں اضافہ، قیمتوں میں اضافے کی بہت بڑی وجہ وہ کرپشن ہے جو ماضی میں شریف خاندان اور زرداری خاندان نے کی، تاہم ہمیں امید ہے کہ قانون اپنا راستہ اپناتے ہوئے کیسز کو منطقی انجام تک پہنچائے گا۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ سلیمان شہباز منی لانڈرنگ کے حوالے سے سوالات پر بالکل بے بس تھے اور شہباز شریف کے پاس بھی اس بارے میں کوئی جواب نہیں ہیں جبکہ اسحٰق ڈار، حسن اور حسین نواز بھی پریشان ہیں، عدالتوں کا سامنا نہیں کر رہے ہیں اور ملک سے باہر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی کے ذریعے شہباز شریف کے اہل خانہ کو 2 کروڑ 60 لاکھ ڈالر آئے اور کچھ ملین ڈالر نواز شریف کے اہل خانہ کو بھی موصول ہوئے تھے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا کہ ان کا کتنا پیسا ملک سے باہر پڑا ہوا ہوگا۔

اپنی گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ حمزہ شہباز کے ظاہر کیے گئے 99 فیصد اثاثے ٹی ٹی پر ہیں جبکہ باقی لوگوں کے 100 فیصد اثاثے باہر سے آنے والے پیسوں کے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہی معاملہ زرداری خاندان کا بھی ہے جنہوں نے پورا بینک ہی خرید لیا اور انہوں نے سارا کام وہی سے چلایا جبکہ اس طرح کے اور بھی مقدمات سامنے آئیں گے جس سے آپ کی نیندیں اڑ جائیں گی۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ صرف اعلیٰ قیادت تک نہیں بلکہ ان کے دور کے کابینہ کے اراکین بھی اس میں ملوث تھے، خواجہ آصف، احسن اقبال اور نواز شریف کو اقامہ رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ سوالات اہم ہیں جن کے جواب آہستہ آہستہ ملنا شروع ہوں گے۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اب تک جو تحقیقات ہوئی ہیں وہ ہمارے دور سے پہلے کی تھی، اب آپ ہمارے دور کی تحقیقات دیکھیں گے، جس میں ہوشربا تفصیلات سامنے آئیں گی اور معلوم ہوگا کہ کس طرح کرپشن کی گئی اور اس کا کتنا حجم تھا۔

اداروں کی بحالی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کے آنے سے قبل اسٹیل ملز ایک قابل منافع ادارہ تھا لیکن انہوں نے اس وقت تک چین نہیں لیا جب تک اس ادارے کو بند نہیں کردیا، تاہم اب وزیر اعظم عمران خان کی کوششوں کی وجہ سے اس ادارے کی بحالی کا منصوبہ پیش کیا جارہا اور 6 کمپنیوں نے اس میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ فی الحال پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے اس ادارے کو چلانے کی تجویز ہے اور دنیا کے 6 بڑے اداروں نے اس کو چلانے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے، تاہم ہم نے اپنے اسٹیل کے نجی کاروبار کرنے والوں کو بھی دیکھنا ہے کہ ان کے مفادات متاثر نہ ہوں۔

ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیوں کے لائنسنز کی تجدید کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کی تجاویز لی ہیں اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو ان تجاویز کو دیکھ کر حتمی فیصلہ کرے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ وفاقی حکومت کی تقرریوں کی پالیسی میں تبدیلیاں لائی گئی ہیں، گریڈ ایک سے 5 تک پہلے سفارش پر بھرتیاں ہوتی تھی اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کو کوٹہ دیا جاتا تھا لیکن اب اس کوٹہ نظام کو ختم کردیا گیا اور اب گریڈ ایک تا 5 بھرتیاں قرعہ اندازی اور بیلٹ کے ذریعے ہوا کریں گی۔

وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ گریڈ 15 سے اوپر کی بھرتیاں نیشنل ٹیسٹنگ سروس (این ٹی ایس) کے ذریعے ہوتی ہے، تاہم اس کے خلاف شکایات آئی ہیں، جس پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ٹیسٹنگ سروس کی کمپنیوں میں ترمیم کریں۔

کابینہ اجلاس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے صوبائی محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو اختیار دیا ہے کہ وہ منی لانڈرنگ کے معاملات کو دیکھ پائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک پاکستانی شہری نعمان حنیف ولد حنیف جان محمد کو یو اے ای کے حوالگی کا عمل کی منظوری دی گئی ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات کی حکومت نے اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ (تعزیرات پاکستان) میں ایک ترمیم کی منظوری دی گئی ہے، جس میں وہ ممالک جہاں سے ملزمان کی حوالگی اس وجہ سے نہیں ہوپارہی کہ پاکستان میں کئی جرائم میں موت کی سزا ہے، لہٰذا ایسے ممالک سے ملزمان کی حوالگی کے حوالے سے جو معاہدہ ہوگا، اس کے تحت ان پر سزائے موت کا اطلاع نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم اس لیے ضروری تھی کہ ہم کم از کم اپنے ’ڈاکو اور چوروں‘ کو واپس لاسکیں۔

نیوز بریفنگ کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حوالگی کے حوالے سے الطاف حسین کا کیس زیر التوا ہے، انہیں واپس لانا ضروری ہے، اس کے علاوہ اسحٰق ڈار، حسین نواز، حسن نواز برطانیہ کو دیے گئے پاکستان کے تحفے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ انہیں واپس کیا جائے تاکہ ہم اپنی تفتیش مکمل کرسکیں۔

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ فہرست کافی طویل ہوتی جارہی ہے، اس پر لوگوں کے دل دھڑکیں گے اور پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کے بعد بہت لائنیں لگیں گی۔

انہوں نے کہا کہ یورپی یونین، برطانیہ اور کئی ممالک ایسے ہیں جہاں قانون میں سزائے موت نہیں ہے اور ان کے قانون میں ہے کہ ایسے ممالک میں ملزم کی حوالگی نہیں کریں گے جہاں سزائے موت ہوتی ہو، لہٰذا ہم ان لوگوں کی واپسی کے لیے ترمیم کی تجویز دی ہے۔

کرتارپور راہداری کے حوالے سے انہوں نے بتایا تھا کہ وہاں ایک کلچرل سینٹر کیا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ آج کے اجلاس میں اثاثے ظاہر کرنے اور ایمنسٹی اسکیم کی منظوری نہیں دی جاسکی، اراکین نے محسوس کیا کہ اس پر مزید بحث کی ضرورت ہے۔

اس موقع پر سوال کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اثاثے ظاہر کرنے اور ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے شق بہ شق دیکھا جارہا ہے، اس پر ایف اے ٹی ایف کا کوئی اعتراضات کا معاملہ نہیں بلکہ کابینہ کے ارکان نے اس پر اعتراض اٹھائے ہیں، جس پر بحث کے لیے وزیر اعظم نے کل اجلاس بلایا ہے۔

وزرا کے تبادلوں کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ کوئی تبدیلی نہیں ہونے جارہی جب ایسا ہوگا تو وزیر اعظم ہاؤس اعلان کرے گا۔

فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ دہشتگردی میں بیرونی قوتیں ملوث ہیں، نیشنل ایکشن پلان کے بعد ہی دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے، تاہم اسی پلان پر مکمل عملدرآمد سے ہی دہشت گردی پر قابو پایا جائے گا۔

دہشت گردی کے واقعات سے متعلق ایک سوال جواب میں انہوں نے کہا کہ نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس ہوچکے ہیں، بلاول بھٹو زرداری کو اس بارے میں نہیں پتہ ہوگا، جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو اس طرح کے حملے بہت ہوتے تھے تاہم اب اس میں بہت کمی آئی ہے، تاہم ہم نے اس پر قابو پانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ جیسے واقعے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری اپنی سیاست کریں لیکن مناسب نہیں کہ کوئٹہ پر ایسی سیاست کی جائے۔

نیب سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نیب والے پہلے ہی مجھ سے ناراض ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں عدالتیں، جیلیں، پراسیکیوشن میں فرق ہے اور اسی فرق کو دور کرنا ہی نظام کی تبدیلی ہے، وزیر اعظم کی پوری کوشش ہے کہ امیروں کے ساتھ بھی وہی ہو جو غریبوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

پلی بارگین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ قانون میں موجود ہے اور ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ ہمارے لوٹے ہوئے پیسے واپس کردیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...