وزیر اعظم کوکرونا کا خیال تو ہے مگر اس سے زیادہ غریبوں کا خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں لوگ شاید کرونا سے نہ مریں مگر فاقے سے مر سکتے ہیں۔ وزیر اعظم کو اس موقف پر سخت تنقید کا سامنا ہے مگر وہ اپنے موقف پر مضبوطی کے ساتھ جڑے کھڑے ہیں جیسے کوئی بیٹس مین طوفانی بائولنگ کے سامنے ڈٹ جائے۔ وزیر اعظم کو یہ تجربہ کرکٹ سے حاصل ہواہے۔
تندی ٔبادمخالف سے نہ گھبرا اے عقاب،یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے۔ وزیر اعظم ایک نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں کہ کوئی کھلاڑی امور مملکت بھی کمال تدبر اور ہوشمندی سے انجام دے رہا ہے۔ کسی کو اس بات کا یقین نہ تھاا ور وہ انہیںا بھی کھلنڈرا ہی سمجھتے ہیں اور ان کے ارد گرد بیٹھ کر کھلواڑ کر رہے ہیں مگر وزیرا عظم کی آنکھیں کسی طر ف سے بند نہیں ہیں ، ان کے دل کی آ نکھیں پوری طرح کھلی ہوئی ہیں اور وہ جیسے جیسے ضرورت پڑتی ہے، اپنی ٹیم میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں،خیرا س وقت یہ موقع اس بحث کا نہیں بلکہ کروناکی وبا سے نمٹنے کا ہے اورو زیر اعظم نے لاک ڈائون کے اگلے مرحلے کا فیصلہ کرنے سے پہلے مشاورت کی انتہا کر دی ہے، مشورہ دینے والے تھک گئے ہوں گے مگر وزیر اعظم پوری طرح چوکس ہیں ۔
اگر وہ زخمی کندھے کے باوجود کرکٹ کا ورلڈ کپ جیت سکتے تھے اور ایک کینسر ہسپتال کے نا ممکن خواب کو عملی تعبیر دے سکتے تھے تو اب وہ ایسے معجزے باآسانی انجام دے سکتے ہیں۔
خدا کا شکر یہ ہے کہ پاکستان میں کرونا نے وہ دہشت نہیں پھیلائی جس کا نشانہ ترقی یافتہ ممالک بن چکے ہیں ۔اس لئے وزیر اعظم کو حوصلہ پیدا ہوا ہے کہ وہ لاک ڈائون تو کریں مگر اس میں کچھ نرمی بھی لائیں اور کچھ ایسے کاروبار کھول دیں جن سے روزی روٹی کا سلسلہ چل نکلے۔ اللہ کرے یہ اقدام اچھے نتائج مرتب کرے اور گھروں میں بند لوگ اپنے روزگار کا بند و بست کر سکیں، میڈیا پر وہ ساری تفصیل آگئی ہے کہ کس کس کام کو کھولا گیا ہے مگر مجھے تو لگتا ہے کہ سوائے چند بڑے شاپنگ سنٹرز کے باقی سب کچھ کھل گیا ہے اور یہ ہمارے کاروبار کا قریب قریب اسی فی صد بنتا ہے۔بس ا سکول کالج بند ہیں اور میلے ٹھیلے بند ہیں۔
میں آج باہرتو نہیں نکل سکا مگر مجھے لگتا ہے کہ لاہور شہر کی رونقیں نکھر گئی ہوں گی اور بہار کے رنگ برنگے پھولوں کے چہروں پر بھی تبسم آگیا ہو گا کہ کوئی انہیں دیکھنے والا بھی شہر میں ہے۔ عام دنوںمیں یہ وہ موسم ہے جب شہر میں بہار کے پھولوں کے میلے لگتے تھے، اب میلے تو ہیں مگر صرف پھولوں کے اور دیکھنے والے خال خال ہیں اور جن کے پیٹ خالی ہیں وہ دیہاڑی لگانے میں کامیاب ہیں۔ میرے گھر میں پانی کی موٹر خراب تھی ،صبح سویرے پلمبر کو فون کیا ۔ وہ اسے ٹھیک کر کے جا چکا ہے۔
اب میںنے اے سی صاف کرنے والوں کو فون کر دیا ہے مگر انہیں بہت سے لوگ پہلے ہی فون کر چکے تھے،ا اس لئے میری باری دس روز بعد آئے گی۔ ادھر میںسر کے بالوں کو دیکھتا تھا تو وحشت سی ہوتی تھی، بال کانوں پر چڑھ گئے ہیں ۔ چلئے اس کے لئے بھی دکانیں کھل گئیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کنسٹرکشن کا بزنس کھل گیا ہے ، مجھے تاجروں کی سمجھ نہیں آئی جو کہتے ہیں کہ وہ لاک ڈائون توڑ دیں گے اور اپنی دکانیں کھول کر بیٹھ جائیں گے، بھائی۔
اگر صرف کنسٹرکشن کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہر دکان کھل جائے گی سریئے والی۔لکڑی والی۔ بجلی والی۔ پائپ والی،پنکھوں والی۔ اے سی والی ۔روم کولر والی، سرامکس والی، ریت بجری والی ا ور پرانے روم کولرز کی خس ڈالنے والی۔کیا کیا گنوائوں ، گنوانے بیٹھوں تو کالم کی جگہ بھر جائے گی، بڑا حوصلہ ہے وزیر اعظم کا ، ایک سیکٹر کو کھولا اور سینکڑوں ذیلی سیکٹرز کھل گئے۔
اب دعا یہ کریں کہ اللہ رحم کرے اورو با پھیلنے نہ پائے۔ ورنہ تنقید کرنے والے وزیر اعظم کی جان کھا لیں گے۔ انہیں پہلے ہی طعنے سننے پڑتے ہیں کہ لاک ڈائون میں دیر کر دی ۔
اب لاک ڈائون میں نرمی کی ہے اور مصیبت زیادہو گئی تو وزیر اعظم کا جینا محال کر دیا جائے گا مگر اوپر ایک خدا بھی ہے جس پر وزیر اعظم کاپختہ ایمان ہے ۔ سب کچھ حکم ربی سے ہوتا ہے ۔تو پھر چنتا کس بات کی۔
ہاں وزیر اعظم نے کسی سے یہ تو نہیں کہا کہ حفاظتی اقدامات کا لحاظ نہ کرو،۔ ا س پر تو وہ پہلے زور دیتے ہیں اور ملک کا سارا میڈیا چیخ چیخ کر حکومتی ہدایت کو دہراتا ہے۔ بچے بچے کو بھی حفظ ہو گیا ہے کہ بار بار صابن سے ہاتھ دھونے ہیں۔اب کسر ا س بات کی ہے کہ صابن سے کمائی کرنے والے کچھ صدقہ خیرات کریں اور سینیٹائزر بنانے والے بھی کریں اور ڈیٹول والے بھی کریں۔ انہوںنے تین ہفتوں میں تین برسوں کی کمائی کی ہے تو اللہ کے رستے میں بھی کچھ حصہ ڈالیںا ور وزیر اعظم کے فنڈ کو لبا لب بھر دیں، اپیل تو وزیراعظم نے اوور سیزپاکستانیوں سے بھی کی ہے، انہیں بھی اپنے ال وطن کے ساتھ فراخدلی کا ثبوت دینا چاہئے۔
موجودہ حکومت نے حاجت مندوں میں اربوں روپے تقسیم کئے ہیں اور ابھی رمضان سر پہ ہے اور غریبوں کی ضرورتیںان گنت ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم ہمت سے کام لیتے رہیں گے اور لوگوں کے کام آتے رہیں گے۔
٭…٭…٭
لاک ڈائون کانیامرحلہ قدرے آسانیاں
Apr 16, 2020