کرونا وائرس کی سنگینی کے پیش نظر حکومت کو کوئی بھی قدم قومی اتفاق رائے سے ہی اٹھانا چاہیے

وزیراعظم عمران کا لاک ڈائون میں مزید دو ہفتے کی توسیع اور بعض کاروباری شعبوں میں مزید نرمی کا اعلان


وزیراعظم عمران خان نے کرونا وائرس کے باعث ملک بھر میں جاری لاک ڈائون میں مزید دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کردیا ہے تاہم کنسٹرکشن اور بعض دوسرے شعبوں میں لاک ڈائون میں نرمی کی گئی ہے۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ اور قومی رابطہ کمیٹی نے اتفاق رائے سے لاک ڈائون میں 30؍ اپریل تک توسیع کی منظوری دی جس کا اعلان وزیراعظم نے اپنے نشری خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈائون کے باعث چھوٹے دکاندار بے روزگار ہوگئے‘ ہمارے ملک میں کرونا جتنا پھیلنا چاہیے تھا‘ اس کا 30 فیصد پھیلا ہے‘ دوسرے ملکوں کی نسبت ہمارے ہاں کم افراد متاثر ہوئے‘ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ کرونا کسی وقت بھی پھیل سکتا ہے‘ احتیاط کرنا نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اب تک ہم ٹھیک چل رہے ہیں‘ خدانخواستہ بے قاعدگی ہوئی تو ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ سکولوں‘ کالجز اور عوامی مقامات پر اگلے دو ہفتے لاک ڈائون رہے گا۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے ہنر سے متعلق تجارت اور کاروبار کھلونے کا فیصلہ کیا ہے چنانچہ درزی‘ پلمبر‘ الیکٹریشن‘ میکنک اور حجام کے کاموں پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ اسی طرح حکومت نے تعمیراتی شعبے سے منسلک دیگر شعبے بھی کھولنے کا فیصلہ کیا ہے جن کے متعلق رولز طے کرلئے گئے ہیں۔ کرونا وائرس کے پھیلنے کے خدشے کے باعث فضائی سفر‘ پبلک ٹرانسپورٹ‘ عوامی اجتماعات‘ شادی ہالز‘ سینما ہائوسز اور عوامی مقامات بند رہیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ صوبے لاک ڈائون نہیں کھولنا چاہتے تو وفاق ان پر زبردستی نہیں کریگا۔
کرونا وائرس نے بلاشبہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے جس سے نمٹنے کیلئے کوئی بھی ملک پہلے سے تیار نہیں تھا چنانچہ دنیا میں جہاں جہاں بھی یہ وائرس پہنچا‘ ان ممالک نے اسکے سدباب کیلئے اپنے اپنے حالات اور وسائل کے مطابق حکمت عملی طے کی تاہم انسانوں میں سماجی فاصلہ قائم کرنے کیلئے ہر متعلقہ ملک نے لاک ڈائون کو ترجیح دی۔ چین نے سخت لاک ڈائون کی حکمت عملی کے تحت ہی تین ماہ کی سخت آزمائش کے بعد اس وائرس پر قابو پایا جبکہ مغربی یورپی دنیا اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہوئی جہاں اس وائرس سے ہونیوالی ہلاکتیں ایک لاکھ سے تجاوز کرچکی ہیں اور 15 سے 20 لاکھ افراد اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔ مغربی‘ یورپی ممالک میں تسلسل کے ساتھ سخت لاک ڈائون کیا گیا جس سے وہاں کے عوام کیلئے روٹی روزگار سمیت متعدد مسائل بھی پیدا ہوئے اور لاک ڈائون کے نتیجہ میں یہی صورتحال جنوبی اور وسطی ایشیائی ممالک اور مشرقِ وسطیٰ میں پیدا ہوئی‘ اسکے باوجود انہوں نے احتیاطی اقدامات میں سخت گیر لاک ڈائون کو ہی ترجیح دیئے رکھی ہے۔
پاکستان میں بھی یقیناً کرونا وائرس کے مہلک اثرات کی بنیاد پر اس کا پھیلائو روکنے کیلئے لاک ڈائون ہی کو صائب اقدام گردانا گیا جس کیلئے سندھ نے زیادہ سخت گیر اقدامات اٹھائے تاہم وزیراعظم عمران خان کرفیو جیسے لاک ڈائون پر اس لئے قائل نہیں ہوسکے کہ اس سے عوام کیلئے پیدا ہونیوالے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل سے ملک کے کم وسائل کے باعث عہدہ برأ ہونا ممکن نہیں ہے۔ گزشتہ روز بھی وزیراعظم نے لاک ڈائون کے اسی پہلو کو اجاگر کیا اور لاک ڈائون میں دو ہفتے کی توسیع کا اعلان کرتے ہوئے روزگار کے حوالے سے بعض شعبے کھولنے کا بھی اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرایا کہ جتنا یہ وائرس پھیلنا چاہیے تھا‘ اس کا محض 30 فیصد پھیلا ہے اور اسی طرح کرونا وائرس سے جاں بحق اور متاثر ہونیوالے افراد کی تعداد بھی دیگر متاثرہ ممالک کی نسبت بہت کم ہے۔ اس پر ہمیں بے شک خدا کے حضور تشکر بھی بجا لانا چاہیے تاہم یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ہمارے ہاں کرونا وائرس جس بھی تناسب سے بڑھا ہے اور اس سے جتنے بھی انسانی جانوں کے نقصانات ہوئے ہیں‘ وہ اس وائرس کا پھیلائو رک نہ پانے کے باعث ہی ہوئے ہیں۔ اگر پاکستان میں کرونا وائرس سے جاں بحق ہونیوالوں کی تعداد 120 تک پہنچ گئی ہے اور اسکے متاثرین 6 ہزار سے تجاوز کرچکے ہیں تو یہ صورتحال ہم سے مطمئن ہو کر بیٹھ رہنے کی ہرگز متقاضی نہیں۔
اس وائرس کا پھیلائو سخت ترین لاک ڈائون سے ہی رک سکتا ہے تو ہمیں اس بارے میں گومگو کی کیفیت میں ہرگز نہیں رہنا چاہیے جبکہ حکومت کی جانب سے لاک ڈائون میں نرمی کے جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں‘ اس سے کرونا وائرس مزید پھیلنے کا خدشہ بہرصورت لاحق ہوگا کیونکہ جو کاروبار کھولنے کی اجازت دی گئی ہے‘ ان میں حد درجہ احتیاط کے باوجود انسانوں میں سماجی فاصلہ قائم رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس صورتحال میں کرونا وائرس کے چیلنج سے عہدہ برأ ہونے کیلئے اب تک کی گئی ساری کاوشیں بھی اکارت جا سکتی ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی عوام کے روٹی روزگار کے حوالے سے فکرمندی اپنی جگہ بجا ہے مگر لاک ڈائون میں مزید نرمی سے ہمیں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اس وقت بھی حکومتی اقدامات کے حوالے سے مختلف طبقات میں کنفیوژن پیدا ہو چکا ہے اور حکومت کے گزشتہ روز کے اعلانات و اقدامات کی بنیاد پر ہی سندھ اور بلوچستان کے تاجروں نے کاروبار کھولنے کا اعلان کردیا ہے اور اسی طرح چیئرمین روئیت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان اور مفتی تقی عثمانی کے علاوہ دینی سیاسی جماعتوں کے قائدین مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق نے بھی نماز جمعہ‘ تراویح اور اعتکاف کیلئے مساجد کھولنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس سے لاک ڈائون عملاً غیرمؤثر ہو جائیگا اور کرونا وائرس کا پھیلائو روکنا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ اس تناظر میں بہتر حکمت عملی یہی ہو سکتی ہے کہ یا تو مکمل لاک ڈائون کیا جائے یا لاک ڈائون مکمل طور پر ختم کر دیا جائے تاکہ اس معاملہ میں ابہام اور گومگو کی کیفیت ختم ہوسکے۔ اس کیلئے نمائندہ علماء کرام اور تاجر تنظیموں سے معنی خیز مشاورت کرلی جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اس سلسلہ میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پہلے ہی مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کو مشاورت کیلئے مدعو کیا ہوا ہے۔ اسی طرح حکومت کو مؤثر اقدامات کیلئے تمام صوبوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے تاکہ کرونا وائرس کے چیلنج سے عہدہ برأ ہونے کیلئے قومی اتحاد و یکجہتی کی فضا ہموار ہوسکے۔ آزمائش کے یہ مراحل ہم نے بہرصورت اجتماعی کاوشوں سے ہی طے کرنے اور ثمرآور بنانے ہیں جس کیلئے کسی جانب سے بھی کوئی دو رائے نظر نہیں آنی چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن