نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف کی بدھ کے روز ضمانت پر رہائی نے مجھے ہرگز حیران نہیں کیا۔ ایک ’’تنظیم‘‘ پر پابندی کا فیصلہ بھی مجھے خامہ فرسائی پر اُکسا نہیں رہا۔ ان دو واقعات سے قطعاََلاتعلق ہوا میں بدھ ہی کے دن امریکی صدر کے خطاب کا منتظر رہا۔یہ خطاب ہمارے ہاں کے رات ساڑھے گیارہ بجے کے بعد ہوگیا۔16منٹ تک پھیلے اس خطاب کا یک سطری پیغام یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک ستمبر2021کے اختتام تک اپنی افواج افغانستان سے ہر صورت باہر نکال لیں گے۔ آغاز اس انخلاء کا اس برس کی یکم مئی سے ہوجائے گا۔دوحہ مذاکرات کے دوران اگرچہ وعدہ ہوا تھا کہ انخلاء کا عمل اس تاریخ تک مکمل ہوجائے گا۔طالبان سے گویا دوحہ میں ہوئے وعدہ پر کامل عملدرآمد کے لئے تقریباََ پانچ ماہ کی مہلت مانگی گئی ہے۔وہ اس پر آمادہ ہوں گے یا نہیں؟ اس سوال کی بابت امریکی صدر خاموش رہا۔
اپنی تقریر کے بیشتر حصے کو اس نے یہ اصرار کرنے پر صرف کیا کہ نائن الیون کے روز امریکی سرزمین پر ہوئی دہشت گردی نے اس کے ملک کو افغانستان پر حملے کو ’’مجبور‘‘ کیا تھا۔ طالبان ان دنوں وہاں کے حکمران تھے۔القاعدہ کو انہوں نے محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررکھی تھیں۔اسامہ بن لادن اس تنظیم کا حتمی کرتا دھرتا تھا۔اکتوبر2001میں افغانستان پر حملے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بتدریج القاعدہ کو تتر بتر کردیا۔وہ اب نئی صورتوں میں عراق،شام اور افریقہ کے چند ممالک میں حیات نو کی کاوشوں میں مصروف ہے۔ امریکہ مگر اسے کامیاب ہونے نہیں دے گا۔اسامہ بن لادن کو بھی آج سے دس برس قبل ماردیا گیا تھا۔اس کے قتل اور القاعدہ کے تتر بتر ہوجانے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان میں بدستور موجود رہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی۔اب افغانستان جانے اور اس کے ہمسائے۔
افغانستان کے ’’ہمسایوں‘‘ کا ذکر ہوا تو جوبائیڈن نے اس ضمن میں ایران کا نام لینے کا تردد ہی نہیں کیا۔پاکستان کے خصوصی ذکر کے بعد نام اس نے روس،چین،ترکی اور بھارت کے لئے۔واضح الفاظ میں پیغام یہ دیا کہ افغانستان میں ’’امن واستحکام‘‘ فقط امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ذمہ دای نہیں رہی۔ مذکورہ ممالک کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ’’خاص طورپر پاکستان کو‘‘۔سفارت کاری کی نزاکتوں کو یکسرنظر انداز کرتے ہوئے میں یہ کہنے کو مجبور ہوں کہ بائیڈن نے بدھ کے روز ہوئے خطاب کے ذریعے افغانستان میں حالات کو ’’مستحکم‘‘ رکھنے کی حتمی ذمہ داری درحقیقت پاکستان کے کاندھوں پر ڈال دی ہے۔اس حوالے سے "Do More"کا لفظ بھی اپنی تقریر میں استعمال کیا۔
22کروڑ کی آبادی والے پاکستان کی اپنی بے پناہ مشکلات ہیں۔رواں ہفتے کے آغاز میں کم از کم دو روز تک ہم نے اپنے ہاں ’’ریاستی رٹ‘‘ کے معدوم ہونے کی دہائی بھی مچائی تھی۔ کئی برسوں سے وطن عزیز مہنگائی،کساد بازاری اور بے روزگاری کے لائے عذاب بھگت رہا ہے۔کرونا کی تیسری لہر بھی نہایت وحشت سے نمودار ہوچکی ہے۔دریں اثناء امریکہ کی نگرانی میں چلائی آئی ایم ایف مصر ہے کہ 6ارب ڈالر پر مشتمل ’’امدادی پیکیج‘‘ کی مزید قسطیں درکار ہیں تو بجلی کی قیمت میں جولائی 2021کے اختتام تک اس کے فی یونٹ میں کم از کم پانچ روپے تک کا اضافہ کرو۔ ٹیکسوں کے ذریعے مزید کئی ارب روپے جمع کرنے کا تقاضہ ہے۔گیس کی قیمتوں کو بھی ’’معقول‘‘ بنانا ہے۔یہ تقاضے پاکستان میں مہنگائی ،بے روزگاری اور کساد بازاری کو مزید ناقابل برداشت بنادیں گے۔ان مسائل کے ہوتے ہوئے پاکستان اپنے تئیں افغانستان میں ’’استحکام‘‘ کیسے یقینی بناسکتا ہے؟
جوبائیڈن نے اپنی تقریر میں جبکہ اعتراف کیا ہے کہ گزشتہ 20برسوں سے کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکہ اور اس کے اتحادی افغانستان کو ’’استحکام‘‘ فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ دُنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کے 2,448فوجی بھی اس ملک میں مارے گئے۔20ہزار سے زائد عمر بھر کے لئے معذور ہوگئے۔جو ہدف امریکہ اور اس کے اتحادی باہم مل کر حاصل نہ کر پائے پاکستان اپنے تئیں کیسے فراہم کرسکتا ہے۔ یہ سوال مگر اس کے زیر غور نظر ہی نہیں آیا۔
اس کی تقریر واضح الفاظ میں بلکہ اعتراف کررہی تھی کہ افغانستان میں ’’امن واستحکام‘‘ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کا بنیادی ہدف ہی نہیں تھا۔اصل مقصد القاعدہ کو سبق سکھانا اور اسامہ بن لادن کو اس کے انجام تک پہنچانا تھا۔طالبان ان کی سرپرستی کی وجہ سے نشانہ بنے۔افغان سرزمین اب امریکہ کے ’’دشمنوں‘‘ کو پناہ گاہیں فراہم کرنے کے قابل نہیں رہی۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ’’اہداف‘‘ گویا حاصل ہوچکے ہیں۔اس کے بعد ان ممالک کی افواج کا افغانستان میں موجود رہنا مسلسل ’’گھاٹے کا سودا‘‘ ہے۔گھاٹے کا یہ سودا مگر سفارت کارانہ مہا رت سے اب پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش ہورہی ہے۔
مسلسل گھاٹے کو یقینی بنانے والے اس سودے کو ہمارے سپرد کرتے ہوئے امریکہ نے ماضی کی جنگوں میں مصروف رہنے کے بجائے ’’مستقبل کی جنگ‘‘ کے لئے تیاری کے ارادے بھی باندھے ہیں۔ہمارے یار عوامی جمہوریہ چین کو اس تناظرمیں امریکہ کا اصل ’’حریف‘‘ بتایا ہے۔دعویٰ کیا ہے کہ چین اپنے زیر اثر ممالک میں ’’آمرانہ اقدار‘‘ کو فروغ دے رہا ہے۔یہ ’’اقدار‘‘ امریکہ کی’’جمہوری اقدار‘‘کے عین منافی ہیں۔ان دونوں ’’اقدار‘‘ کے مابین تخت یا تختہ والا معرکہ برپا ہوکررہے گا۔امریکہ اور اس کے اتحادیوںکو یہ معرکے جیتنے کے لئے بھرپور انداز میں بے تحاشہ نئے محاذوں پر تیار رہنا ہوگا۔عالمی محاذ پر سادہ الفاظ میں بیان کردیا گیا ہے کہ نئی صف بندی ہوچکی ہے۔ لکیر کے ایک جانب امریکہ اور اس کے اتحادی ہیں اور ان کی نام نہاد ’’جمہوری اقدار‘‘۔ مقابل فریق کی قیادت چین بتایا جارہا ہے۔پاکستان اس صف بندی میں امریکی صدر کو کہاں کھڑا نظر آیا اس کا ذکر بھی اس نے اپنی تقریر میں نہیں کیا۔
جوبائیڈن سے اس تناظر میں بے اعتنائی کا گلہ مگر کیوں کریں۔ہمارے روایتی اور سوشل میڈیا میں بھی تمام ترہیجان خیزی کے باوجود عالمی محاذ پر ہوئی اس صف بندی پر خال ہی توجہ دی جارہی ہے۔عمران حکومت کے ’’استحکام‘‘ کی بابت سوالات اٹھ رہے ہیں۔جہانگیر ترین کی ’’بغاوت‘‘ نے رونق لگارکھی ہے۔کوئی حکومت جب ’’غیر مستحکم‘‘ نظر آنا شروع ہوجائے تو نگاہ فطری طورپر اپوزیشن جماعتوں کی جانب مبذول ہوجاتی ہے۔ نواز شریف کے نام سے منسوب مسلم لیگ اس تناظر میں اہم ترین جماعت ہے اس کی بابت کہانی مگر اب یہ چل رہی ہے کہ ضمانت پر رہائی کے بعد شہباز شریف اپنے بھائی کے ’’بیانیے‘‘ سے فاصلہ دکھانا شروع ہوجائیں گے۔آج سے چھ ماہ قبل بہت دھوم دھام سے اپوزیشن جماعتوں کا ایک ’’اتحاد‘‘ بھی قائم ہوا تھا۔اُڑنے بھی نہ پایا تھا کہ دھڑام سے زمین پر آرہا ہے۔جوبائیڈن کی بدھ کے روز ہوئی تقریر کے بعد جو منظر اُبھرنا ہے وہ کہیں زیر بحث ہی نہیں۔امریکی صدر کی تقریر سے قبل اس ملک کے وزیر خارجہ نے ہماری ’’منتخب‘‘ حکومت کے کسی رہ نما سے رجوع کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔سنا ہے ہمارے ہاں ایک ’’آزاد اور خودمختار‘‘ پارلیمان بھی ہوتی ہے۔ اس کے دو ایوان ہیں ۔ دونوں میں خارجہ امور پر غور کاڈرامہ رچانے کے لئے ’’سٹیڈنگ کمیٹیاں‘‘ بھی ہیں۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ ان کا آخری اجلاس کب ہوا تھا۔ جو اجلاس ہوئے وہاں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد کا منظر زیر بحث آیا بھی یا نہیں۔ ہماری ’’منتخب‘‘ حکومت ہو یا پارلیمان میں بیٹھی اپوزیشن۔ دونوں نے سنجیدہ اور اہم ترین معاملات پر غور کرنا ہی ترک کردیا ہے۔ ٹھوس اطلاعات سے یکسر محروم ایک ریٹائرڈ رپورٹر ہوتے ہوئے میں عالمی محاذ پر اُبھرتی صف بندی کے بارے میں لہٰذا کوئی رائے کیسے دے سکتا ہوں۔