جسٹس فائز نظر ثانی کیس‘ سوا ل پوچھنا جج کی صوابدید ہے: سپریم کورٹ 

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم جوڈیشل کونسل پر جانبداری اور بدنیتی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے سپریم جوڈیشل کونسل نے انصاف کا قتل عام کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے سوال اٹھایا کہ اصل کیس میں سپریم جوڈیشل کونسل سے متعلق دلائل نہیں دیے گئے تھے تو نظر ثانی کیس میں کیسے اس نکتے پر درخواست گزار کو سنا جا سکتا ہے؟۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جسٹس کھوسہ نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ فاضل جج نے دلائل دیتے ہوئے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر پر توہین عدالت کاالزام عائد کیا اور موقف اپنایا کہ مذکورہ دونوں افراد نے غیر قانونی طور پر میرے انکم ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی۔ عدالت نے فاضل جج کو اپنے مقدمے پر دلائل دینے کی ہدایت کی  میں خون کے آخری قطرے تک لڑوں گا اور ہمت نہیں ہاروں گا۔ جمعرات کو جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل کا آغاز اس شعر سے کیا کہ غم عشق لیکر ہم جائیں کہاں، آنسوئوں کی یہاں کوئی قیمت نہیں، اپنی اہلیہ بیٹی اور بیٹے سے معذرت خواہ ہوں، میری وجہ سے اہلیہ اور بچوں کے خلاف فیصلہ آیا۔ کیس ایف بی ار کو بھیجوانے کا فیصلہ عدالتی اختیارات سے تجاوز تھا، ججز سے غلطی ہو جائے تو نظر ثانی کا اختیار حاصل ہے۔ عدالتی حکم آئین اور متعدد قوانین کے خلاف ہے، کسی شخص کے ٹیکس ریکارڈ تک غیر قانونی رسائی فوجداری جرم ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا آپ کے وکیل نے جوڈیشل کونسل والے حصے پر دلائل نہیں دئیے تھے۔ سپریم جوڈیشل کونسل والے حصے پر نظرثانی میں دلائل کیسے دے سکتے ہیں؟۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا کہ میری درخواست کا ایک حصہ ریفرنس دوسرا جوڈیشل کونسل کے متعلق تھا۔ عدالت نے ریفرنس کو اپنے فیصلے میں زندہ رکھا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے خلاف مجھے سنگین تحفظات ہیں۔ میرا کیس دوبارہ جوڈیشل کونسل بھجوایا گیا اس لیے سپریم جوڈیشل کونسل کے حوالے سے دلائل دوں گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا جن ججز کے آپ نام لے رہے ہیں وہ ریٹائر ہوچکے ہیں۔ بار بار دو ججز پر الزامات نہ لگائیں، جو بات میں نے کی نہیں وہ میرے سے منسوب مت کریں۔ میں نے صرف ایک سوال پوچھا ہے۔ جسٹس منظور احمد ملک نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جج صاحب آپ پارٹی نہ بنیں بلکہ ایک وکیل کی طرح اپنے دلائل دیں۔ جسٹس مقبول باقر نے کہا اپنے کیس پر دلائل دیں آپکی مہربانی ہوگی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر سے معذرت کر تے ہوئے موقف اپنایا کہ معزز جج صاحبان میری دلیل سے اتفاق کریں یا اختلاف کریں یہ انکی صوابدید ہے۔ مجھے اپنے دلائل دینے کا تو حق حاصل ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا آپ اس وقت درخواست گزار ہیں، میں بنچ کے رکن جج کے طور پر سوال پوچھ رہا ہوں جبکہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ سوال پوچھنا جج کی صوابدید ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ تحمل کا مظاہرہ کریں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اثاثہ جات ریکوری یونٹ قانونی وجود نہیں رکھتا۔

ای پیپر دی نیشن