گرمی کے دن ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ سورج آگ برسا رہا ہے ۔پورا دن کام کرنے کے بعد جب شام کو گھر کیلئے نکلا تو ہمیشہ کی طرح ایک اچھا احساس ہے ، لاہور کا لبرٹی چوک جس کی رنگوں میں سجی ہوئی سڑک دیکھ کر دل کو سکون ملتاہے اور پھر گلبر گ مین بولیوارڈ جو کے لاہور شہر کے دل کا درجہ رکھتی ہے ، یہاں کی رونقیں کمال ہیں ، یہاں کی رنگینیاں بے مثال ہیں، بہت سارے شاپنگ مال، بہت سارے پلازے اور سڑک کے درمیان اور اطراف میں لگے درخت جو اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جب یہاں موجود حفیظ سینٹر میں آتشزدگی کا واقعہ ہوا تو ہر دل اداس تھا، لاہورمیں باہر سے آنے والوں کو جہاں انارکلی بازار، اچھرہ بازار اور دوسرے مقامات سے پیار ہے ویسے یہاں بسنے والوں کی اکثریت کو حفیظ سینٹر سے دلی لگاو ہے ، اور کیوں نا ہو، یہ ایک عمارت اس شہر کے ہزاروں لوگوں کو روزگار مہیا کر رہی ہے ، اور یہ شہر ہی نہیں پورے پنجاب میں جو لوگ موبائیل اور آئی ٹی کی صنعت سے جڑے ہیں وہ سب کسی نا کسی طرح اس پلازے سے منسلک ہیں۔آہ مگر یہ کیا، کینٹ سے نکلتے ہی ٹریفک بلاک، ہر طرف گاڑیوں کا گھمسان، پتہ کرنے پر معلوم ہو ا کہ مذہبی جماعت کے کارکنوں نے اگلے چوک پر قبضہ جمایا ہوا ہے اور راستہ بند کیا ہوا ہے ، اور زبردستی اطراف کی دکانیں بند کرا کر لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے توڑ رہے ہیں ، ایسی صورتحال میں بڑی مشکل سے گاڑی کو پیچھے کیا اور ایک دوسرے راستے کی جانب چلا گیا، رنگ روڈ کے پاس بھی یہی صوتحال تھی۔ بس پھر ایک گلی میں داخل ہوا اور گلیوں میں گھومتا پھرتا کافی دیر بعد گھر پہنچ ہی گیا۔کچھ یر بعد معلوم ہوا کے قریب محلے میں رہنے والے ایک غریب کا رکشہ چوک میں نذرِ آتش کر کے خوب جشن منایا گیا، بیچارہ تھانے گیا تو پتہ چلا وہاں بھی چند زخمیوں کے علاوہ کوئی نہیں۔ والد صاحب جو پینشن لینے کیلئے گجرات گئے تھے وہاں بھی حالات خراب تھے۔ جس گاڑی پر سوار تھے انہوں نے سب سواریوں کو سڑک کے جی ٹی روڈ کے بیچ اتارا اور اپنی گاڑی لے کر چلتے بنے۔ بہت مشکل سے اپنے دوستوں سے رابطہ کر کے کسی طرح انہیں موٹر سائیکل پر کھیتوں میں سے گزار کر رشتہ داروں کے گھر پہنچایا۔
کل جب دفتر گیا تو دوست سے پتہ چلا کہ حالات بہت نازک ہیں، شاہدرہ کے میٹرو اسٹیشن کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے ، اس کے علاوہ دیگر سرکاری املاک کو بھی ۔ میں نے استفسار کیا کہ پولیس کیا کر رہی ہے تو وہ بیچارہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور کہا کہ آپ نے سوشل میڈیا نہیں دیکھا، پھر اس نے تصاویر شیئر کیں جن میں بیچارے پولیس والے ہسپتالو ںمیں پڑے ہوئے ہیں ، کسی کا سر پھٹا ہوا تو کسی کا چہرہ مار مار کر لہو لہان کیا ہوا ہے ، کسی کا بازو ،کسی کی ٹانگ اور کچھ کو تو مار مار کو جان نکال دی۔ چند ویڈیوز دیکھیں جن میں شاہدرہ میٹرو سٹیشن پر حفاظت کے لئے تعینات پولیں والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ دل بجھ گیا، کیا یہ میرا لاہور ہے؟ کیا یہ زندہ دلانِ لاہور ہیں؟ آپ جس وجہ سے غصہ ہیں وہ غصہ جائز ہے ، میں بھی نہیں چاہتا کہ فرانسیسی صدر کو کوئی مہلت دی جائے، مگر یہ کیا طریقہ ہے ؟ اگر آپ واقعی حق پر ہیں تو پھر یک زبان ہو جائیں، پُر امن احتجاج کریں اور کہیں عمران خان کو کہ جناب آپ نے جو حرمتِ رسول کا نعرہ اقوامِ عالم میں بلند کیا تھا اس کا کیا بنا؟ اس ملک میں بسنے والے ہم سب مسلمان ہیں اور ہم سب کے دل دکھی ہیں پر میرا سب سے سوال سے کہ کیا صرف ایک سفیر کو ملک بدر کرنے سے ہمارے سینے میں جو آگ لگی ہے وہ ٹھنڈی ہو جائے گی؟ یا پھر جو ہم چاہتے ہیں وہ ہمیں حاصل ہو جائے گا؟ اور اگر حکومت ایسا کر دیتی ہے اور مستقبل میں دوبارہ کوئی ایسی گستاخی کرتا ہے تو پھر ہم کس کو نکالیں گے؟ پھر ہم کس سے جواب طلب کریں گے؟ تو میری تمام امت سے اپیل ہے کہ یہ موضوع اور یہ وقت سب کے ایک ہونے کا ہے ، اور پورے ملک کو یک جان اور یک زبان ہو کر اپنا پیغام اقوام عالم تک پہنچانا ہو گا، انہیں باور کرانا ہو گا کہ نبی کریم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی حرمت ہمیں جان سے عزیز ہے اور اگر آپ آزادی اظہار رائے کی آڑ میں چھپ کر آپ ﷺ یا دیگر پیغمبروں میں سے کسی کی توہین کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر یہ سب اقوامِ عالم کے امن کو ختم کر دے گا۔ اس کیلئے عالمی سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہے ، جس کیلئے وزیر اعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی دونوں سے اپیل ہے کہ وہ عالمی سربراہان کے سامنے اس معاملے کو اٹھائیں اور جلد سے جلد ایسے قوانین بنوائیں جن سے مستقبل میں ایسے گھناونی سازشوں کو روکا جا سکے اور دنیا میں دیر پا امن قائم ہو سکے۔یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور ہم سب ہی قیامت کے دن اس کیلئے جوابدہ ہوں گے۔باقی حالیہ واقعات میںملوث عناصر اور ریاستی اتھارٹی چیلنج کرنے والوں پر قانون کی عملداری لاگو کرنا ہوگی ورنہ آئے روز ایسے واقعات رونماہوتے رہیں گے۔
آہ میرے پیارے وطن
Apr 16, 2021