فطرت کا نظام اصول اوڈسپلن کے تابع ہے۔ جہاں جہاں اصول کو تاخت ورتاراج کیاگیا وہاں وہاں آفات نے ڈیرے ڈال لیے۔ انسانی زندگی بھی اصول اور نظریہ کے تابع ہے ۔جہاں اخلاق باختگی کا سفر ہوا معاشرہ تنزلی کاشکار ہوا ۔اسی اخلاق باختگی کو اخلاق صالح میں بدلنے کے لیے اسے ارکان اسلام سے جوڑ دیاگیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ یہ تمام ارکان امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرتے ہیں۔ روزے کا مفہوم بھی انسانیت کے لئے احساس کو دل میں بھرنا، اس کی بھوک پیاس کی تڑپ کو محسوس کرنا اور اس کی تکالیف کے ازالے کی کوشش کرنا ہے۔ دنیا کے تقریبا ہر مذہب میں روزے کو تصورموجودرہاہے۔ فرمایاگیا اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تاکہ تم متقی بن جاو۔ انسائکلوپیڈیا آف برٹانیکا میں لکھا ہے کہ کسی ایسے قابل ذکرمذہبی سلسلے کانام لینا مشکل ہے کہ جس میں روزے سے کلیتا انکار کیا گیاہو اوراسے تسلیم نہ کیاگیاہو اور اسکا مقصد معبودکا قرب حا صل کرنا نہ رہاہو ۔اب جب خداکی خوشنودی کا زریعہ روزہ ہے تواسی مقدس ماہ میں اشیائے خورونوش ،پھل سبزیوں اور ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتیںآسمانوں پر جاپہنچتی ہیں۔ منہ مانگی قیمتیں وصول کی جاتی ہیں۔ رمضان سے پہلے جوچیز سوروپے میں ملتی ہے اس میں تین گنا اضافہ ہوحاتا ہے اور وہ غریب جو پہلے ہی مہنگائی کی بھینٹ چڑھا ہوتا ہے اسکی جیب اسے قطعا اجازت نہیں دیتی کہ افطاری کا انتظام کرسکے ۔اس پر طرہ یہ کہ انتظامیہ بھی بے بس نظر آتی ہے۔ روزے کا صحیح تصور مواخات سے ہے یعنی جوصاحب استطاعت نہیں ہیں ان کے دکھ کوسمجھنا اور انکی مالی اعانت کرنا ۔بخاری شریف سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت فیا ض تھے لیکن رمضان میں آپ کی فیاضی بہت بڑ ھ جاتی تھی۔ مذہب اسلام ایک ایسی سوسائٹی کا خواہاں ہے جہاں عدل وانصاف، مساوات اور مواخات کے اصولوں پرعمل ہو ۔روزے کاتعلق انسان کے باطن سے ہے۔ لہذا باطن کی صفائی ہی معاشرے کی اصلاح کے لیے درکارہوتی ہے ۔واصف علی واصف کے نزدیک باہر کی کامیابی بے معنی ہوجاتی ہے جب اندر ضمیر کی عدالت میں انسان مجرم ہو۔صوفیاء کرام کے نزیک انسانیت کے ساتھ نیک معاملات ہی اندر کی صفائی ہے۔اورروزہ اسی پریکٹس کانام ہے۔ اسکے علاوہ روزہ بذات خود دوسروں کی اصلاح کا ذریعہ ہے ۔روزہ دار کی روحانی قوت تیز ہوتی ہے ۔ اس پر مکاشفات کے دروازے کھلتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے کے استحکام میں لازمی عنصر ضبط نفس ہے ۔روزہ ایک ایسی عبادت ہے جوانسان میں ضبط نفس پیدا کرتا ہے ۔اسلام کی تمام تر عبادات کا مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ تعالی کی ہستی کا تصور انسان کے دل میں رچ بس جائے کیونکہ اللہ کا تصور ہی انسان کو بدیوں سے بچاتا ہے۔ روزہ ہی وہ عبادت ہے جس کا اجر پروردگارخوددیتے ہیں۔ ایک ماہ کی مشق سے جذبہ اطاعت انسان میں رچ بس جاتاہے۔ بحیثیت معاشرہ بھی ایک متواز ن راستے کے لیے آپس میں اتحاد اتفاق،بھائی چارہ اور ایک دوسرے سے محبت اور درگزر کے اصول اپنائیں جو نہ صرف روزے بلکہ اسلامی تعلیمات کا بھی خاصہ ہے۔ اسلام نے معاشرے کے امراء کو بھوک اور پیاس کا احساس دلانے کے لئے روزوں کی تعلیم دی ہے تاکہ وہ غریب کے احساسات اور اس کی بھوک پیاس کوسمجھ سکیں اور ان میں غریب کے لیے احساسِ ہمدردی اورمواخات کا جذبہ پیدا ہو۔ آج کے دور میں جہاں تیزی سے صبر اور برداشت کا خاتمہ ہورہا ہے وہاں اس امر کو زندہ رکھنے کے لیے روزہ رکھنا ناگزیر ہے جتنی بھی عبادتیں ہیں انکا مقصد تطہیر قلوب کے ساتھ ساتھ طبی فوائد بھی رہے ہیں آج ضرورت اس امرکی ہے کہ ہم اپنے اندر وہ روشنی پیدا کریں کہ جسکا عکس باہر کسی چیز پرپڑے تو وہ منور ہوجائے اور یہ اسلام کی تعلیمات پرعمل سے ہی ممکن ہے۔