عوام کی نئی حکومت سے توقعات 

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں عمران خان پہلے وزیر اعظم ہیں جو خالصتاً جمہوری طریقے سے عدم اعتماد کے ذریعے اس عہدے سے فارغ ہوئے۔ یہ منفرد اعزاز حاصل کرنے والے سابق وزیر اعظم آخری گیند تک کھیلنے کا دعویٰ کرتے رہے لیکن انہوں نے کھیلنے کی بجائے وکٹیں اکھاڑ کر راہِ فرار اختیار کی۔ یوٹرن کے بادشاہ اس سیاسی لیڈر نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے عوام کو ہر روز نت نئے سہانے خواب اور سنہری باغ دکھائے، آئی ایم ایف سمیت کسی بھی عالمی مالیاتی ادارے سے قرضے نہ لینے اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے بلند بانگ دعوے کئے لیکن اس کے برعکس انہوں نے اپنے 44 ماہ کے دورِ حکومت میں ریکارڈ بیرونی قرضے حاصل کئے اور لوٹی ہوئی دولت کی ایک پائی بھی واپس نہ آ سکی۔ کرپشن کا خاتمہ کرنے والی حکومت کے دور میں کرپشن کا گراف اوپر گیا اور نت نئی کہانیاں سامنے آنے لگیں۔
 ’’عمران خان نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کئی سوالات اُٹھا دئیے جس کا خمیازہ معیشت پر منفی اثرات کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے یہ حقیقت ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں 50 لاکھ گھر بنانے کا دعویٰ کرنے والوں نے نہ صرف بے روزگاری میں اضافہ کیا بلکہ ہزاروں لوگوں کو بے گھر کر دیا ۔ اب ایوان کی اکثریت حاصل کرنے والے متحد ہ اپوزیشن کے متفقہ امیدوار میاں شہباز شریف اقتدار سنبھال چکے ہیں دوسری طرف پی ٹی آئی نے ملک بھر میں اس نئی نویلی حکومت کے خلاف بھرپور مظاہرے بھی شروع کر دئیے ہیں ۔
یاد رہے کہ اس وقت تحریک انصاف سے بغاوت کرنے والے ممبران کو چھوڑ کر بھی ان کے پاس اسمبلی میں اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں میاں شہباز شریف کی حکومت کو غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ 
اس نئی حکومت کو ملکی استحکام، قومی یکجہتی ، اتحاد و اتفاق اور سیاسی مفاہمت پیدا کرنے، سیاسی دشمنی، ذاتی عناد، گروہ بندی، علاقائی اور مذہبی تعصب کے ساتھ ساتھ ذاتی سیاسی اور مالی مفادات کے خاتمے کے لیے جامع حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے کام لینا ہو گا۔ 
میاں شہباز شریف نے 2018ء میں عمران خان کے حکومت سنبھالنے کے فوراً بعد اپنی تقریر میں میثاقِ معیشت کے لیے حکومت کو پیش کش کی تھی ۔ آج حکومت سنبھالنے کے بعد انہیں اپنی اس پیشکش کو دوبارہ دہرانا چاہیے کیونکہ ملک میں جاری حالیہ کشیدگی اور سابقہ حکومت کی غلط اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے معیشت تباہ حالی کا شکار ہے۔ عوام کی یہ خواہش ہے کہ ملک کو غیر ملکی قرضوں کے چنگل سے باہر نکالا جائے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں اپنے ا نسانی اور قدرتی وسائل سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔
 ہمارے معدنی وسائل کے ماہرین نے کئی بار کہا ہے کہ زمین میں چھپے ہوئے خزانے یعنی معدنیات میں اس قدر صلاحیت موجود ہے کہ وہ ملک کو قرضوں کے عذاب سے نجات دلا سکتی ہے۔ اسی طرح ہم اپنے زرعی اور صنعتی شعبے کو مضبوط بنا کر بھی اپنی برآمدات میں کئی گنا اضافہ کر سکتے ہیں۔ 
میاں شہباز شریف کی قیادت میں اقتدار سنبھالنے والی حکومت یہ بات یاد رکھے کہ اس وقت مہنگائی عروج پر ہے ہمارے نوجوانوں کی بے روزگاری ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے لہٰذا مہنگائی اور بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف عملی اقدامات کر کے گڈگورننس ثابت کرنا ہو گی۔ نئی حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ روزگار کی فراہمی کے لیے عملی منصوبہ بندی کرے۔
 صنعت و تجارت کو فروغ دے، جاری ترقیاتی منصوبوں کو مکمل کرے۔ خاص طور پر سی پیک کی رفتار کو تیز کرنے سے بھی روزگار کی موجودہ رفتار تیز ہو سکتی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ، گرمیوں کے باوجود ہر جگہ گیس کی لوڈشیڈنگ کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے فوری عملی اقدامات کر کے میاں شہباز شریف کی حکومت اپنی ساکھ بہتر بنا سکتی ہے۔ 
حکومت کو چاہیے کہ وہ دوسری سیاسی جماعتوںکے مشورے سے انتخابی اصلاحات کرے اور الیکشن کمیشن کو مزید فعال کرے۔ وہ جمہوریت کے بنیادی ستون بلدیاتی اداروں کو ان کی اصل شکل میں بحال کرے۔ اس سے یقینا جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط ہونگے۔ 
ریاست کے تمام اداروں کو مضبوط کرے۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کو اپنے اپنے فرائض آزادی سے ادا کرنے کیلئے ماحول فراہم کرے۔ ملک کی خارجہ پالیسی کو مضبوط بنانے کیلئے عملی اقدامات کرے اس سلسلے میں اسلامی ممالک سے خارجہ تعلقات ا ور تجارت بڑھانے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ ترقی اور مضبوط معیشت کے فرضی دعوئوں کی وجہ سے عمران خان کی حکومت عوام کے غضب اور غصے کا باعث بنی رہی۔ نئی حکومت کو ہمیشہ اپنے عوام کے ساتھ سچ بولنا چاہیے کیونکہ ووٹ کی طاقت ہمیشہ عوام کے ہی پاس ہوتی ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...