حسب موقع
ازقلم : رقیہ غزل
یہ مقدس ماہ رمضان کا آخری عشرہ ہے اور عید الفطر کی آمد آمد ہے۔ہرمسلمان ماہ صیام کی مبارک ساعتوں کی سعادتیں سمیٹنے اور مغفرت طلب کرنے کے لیے بارگاہ خداوندی میں دست دعا ہے۔ قرآن واحادیث میں رمضان شریف کے بڑے فضائل اور برکات مذکور ہیں۔ احادیث کے مطابق رمضان کے تین عشرے تین مختلف خصوصیات کے حامل ہیں اور ہر ایک پر خصوصی رنگ غالب ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رمضان کا پہلا عشرہ رحمت کا، دوسرا عشرہ مغفرت کااور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة، حدیث 1780، بیہقی شعب الایمان) یہی وجہ ہے کہ صیام و قیام کے علاوہ مخیر حضرات کی طرف سے غریب و نادارافراد کے لیے سحر و افطار میں دسترخوان سجانے کا بھی خاص اہتمام کیا جارہا ہے۔یقینا سبھی اپنی اپنی استطاعت اور ہمت کے مطابق محبتیں اور آسانیاں تقسیم کر رہے ہیں اور نیکیاں کما رہے ہیں لیکن سوال تو یہ ہے کہ کیا ہمارے عزیز رشتے دار بھی ہمارے جذبہ ایمانی اور کار خیرسے مستفید ہو رہے ہیں یاہم انھیں نظر انداز کر کے غیروں کی مدد کر رہے ہیں ؟ یقینا اللہ کی نظر میں بہتر انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہے مگر پہلے یہ دیکھنا ہوگا کیا آپ اپنوں کے لیے بھی نفع بخش ہیںیا دلوں میں بغض رکھتے ہیں اور حاجت روائی کا لبادھا اوڑھے گھوم رہے ہیں ؟اس کا ادراک مجھے دو ماہ پہلے ہوا۔۔واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں یونیورسٹی سے واپس آرہی تھی کہ راستے میں ایک شخص کو فی سبیل اللہ مانگتے دیکھاجو کہ دونوں ہاتھوں سے محروم تھا۔اور بن ہاتھ بازوو¿ں کو اٹھا اٹھا کر منتیں کرتا ہوا مانگ رہا تھا اور آوازیں دے رہا تھا کہ اللہ کے واسطے مدد کرتے جائیں۔میں نے دیکھا کہ عوام الناس کے علاوہ ہرعمر کے طلبائ و طالبات بھی حسبِ توفیق اس کی مدد کرتے جا رہے تھے۔اس والہانہ انداز میں اللہ کے نام پر خیرات کرنا بڑا اچھا لگ رہا تھا۔میں نے بھی حسبِ موقع اس معذور بھکاری کی مدد کی اور گیٹ کے اندر داخل ہوگئی۔جب یونیورسٹی کی مصروفیات سے فارغ ہو کر واپس آئی تو اسی گیٹ کے سامنے ایک چھوٹے سے ہوٹل پرمیں نے ا سی معذوربھکاری کو دوبارہ دیکھا مگر اس بار منظر ہی کچھ اور تھا۔ وہ شخص کھانا کھا رہا تھا مگر یہ منظر معمولی نہ تھا بلکہ اس منظر نے مری عقل و شعور کو جھنجھوڑ ڈالا اور میرے ذہن و دل میں ایک بھونچال سا آگیا کہ اس شخص کے سامنے گوشت،سلاداور رائتہ کی ڈش تھی مگر وہ اپنے منہ میں ازخود نوالہ ڈالنے سے قاصر تھا،اسی وجہ سے ایک دوسرا شخص اس کے منہ میں نوالے ڈال رہا تھا۔وہ اس کے منہ میں کبھی سلاد ڈالتا اور کبھی رائتہ کے چمچ بھر بھر کر اسے کھلاتا اور کبھی پیپسی کا گلاس بھر کر اس معذوربھکاری کو پلا تا۔مجھے اس معذور شخص کی اس خوش خوراکی پر بہت خوشی ہوئی مگر اس کے ہاتھوں کا نہ ہونا مجھ سے دیکھا نہ گیا کیونکہ آج میں نے ان ہاتھوں کی اہمیت اور قدر جانی اور دیکھی تھی کہ کبھی ان ہاتھوں کو عطا کرنے والے کی اس عطا کو اتنی زیادہ اہمیت ہی نہ دی تھی،بلکہ مجھے خیال آیا کہ ہم تو اس نعمت کو بھی رنگ اور تراش خراش کے ترازو میں جانچتے رہتے ہیں۔میں جو عین اس موقع پر بھوک اور پیاس کی شدت سے بے حال تھی مگر اپنے بازوں سے لگے ہوئے زندہ اورسلامت ہاتھوں کو دیکھ کر مجھے سب بھول گیا اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ اگر اس جگہ پر ممکن ہو سکے تو میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار ایسی نعمتوں کے عطا کرنے پر اس کے حضور شکرانے میں سجدہ شکر بجا لا?ں۔لہذا جلدی سے اپنے گھر پہنچی اور جاتے ہی اپنے خدائے بزرگ و برتر کے سامنے سجدہ ریز ہو گئی پھر میرا دل بے ساختہ اپنی ناشکریوں اور نادانیوں پر اتنا کھل کر رویا کہ آنسوو¿ں سے آنکھیں تر ہو گئیں اور پھر روتے ہوئے مجھے اونگھ آگئی۔اونگھ میں ایک لمحہ کے لیے ایک منظر سامنے آیا اور کہیں سے آواز آئی کہ ہاتھوں کی افادیت پر رو رہی ہے۔۔ اپنی بے بسی اورعدم توجہی پر غور کر کہ تونے اپنی پیدائش سے لیکر آج تک اپنی ذات کے ساتھ احسان کرنے والوں کے احسانات کا کیا بدلہ دیا ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے محسنوں کو پہچاننے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ہے۔کہ اس اللہ عزوجل خالق کل کائنات،خیر الرازقین،مالک یوم الدین جو بغیر کسی شک و شبے، شریک اور تنازع کے ہر ایک چیز کا اکیلا مالک اور قادر ہے اور از خود رحم کرنے والا اور بن مانگے عطا کرنے والا،عاصیوں و خطا کاروں کو معاف کرنے والا، سیاہ کاروں کو بخشنے والا اورتمام جہانوں کو پالنے والا ہر طرح کی عبادت کے لائق، صرف وہ ہی صراط مستقیم پر قائم رکھنے پر قادر اور گمراہیوں سے بچا کر سیدھے راستہ پر گامزن رکھنے پر قادرہے اس قادر مطلق نے تو یہ مخلوق سے شفقت کی بنا پر یہ اصول بنا لیاکہ وہ رحم والا معاملہ ہی فرمائے گا چاہے کوئی تابع فرمان ہو یا نافرمان ہو تو اس خدائے پاک کے بے شمار احسانات اور عطاو¿ں کا کیا شکریہ ادا کرو گی۔۔؟
اس خواب نے میرے ضمیر،عقل و شعوراور روح کو جھنجھوڑڈالا اور میں نے اللہ تعالیٰ سے دوبارہ اپنے کردہ و ناکردہ گناہوں کی معافی طلب کی اور اس ذات باری تعالیٰ کا ذکر شروع کر دیا اورپھر آخری نبی الزماں حضرت محمد(ص) پر درودپاک پڑھنا شروع کر دیا کہ جن کی دنیا میں آمد سے بحمدللہ آج ہم دین اسلام پر گامزن اور عمل پیرا ہیں،پھر اپنے والدین،بہن بھائی دیگر افراد کنبہ،اساتذہ،ہمسائیوں اور زندگی کی راہ میں نیکی اور بھلائی کے راستوں پر رواں دواں رکھنے میں معاونت کرنے والے مہربانوں کے لئے بے شمار دعائے خیر کی اور اس کو اپنا معمول بنانے کا عہد کیا اور اس مثبت تبدیلی کے آنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر کیابلا شبہ شکر گزاری ہمت اورسعادت ہے ،قرب الہی اور اعتراف بندگی کا ذریعہ ہے لہذا اپنے محسنوں کو پہچانئے۔۔