اسلام آباد (خبر نگار + نوائے وقت رپورٹ) پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ(پی ڈی ایم)کے سربراہ جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ مذاکرات کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن کس سے، عمران کہتا ہے کہ الیکشن کو تسلیم کرنے کا فیصلہ نتیجہ آنے کے بعد ہوگا۔ دو تہائی اکثریت نہ ملنے کی صورت میں نتائج تسلیم نہیں کریں گے۔ اس کی حیثیت کیا ہے، ساڑھے تین سال میں ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے کیا ہم نے اس ملک کو توڑنا ہے۔ اگر دوبارہ اقتدار میں آتا ہے تو اس کا نامکمل ایجنڈا پورا کرنا ہے‘ اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ زلمے خلیل زاد بھی کہتا ہے کہ اس سے بات کریں‘ براڈ شیرمین بھی کہتا ہے سپریم کورٹ تضادات کا شکار ہے، ہمیں کہتا ہے بات کرکے طے کروسپریم کورٹ ہمیں بلیک میل کر رہی ہے۔ مذاکرات کی بات کر کے آئین کی نفی کر رہا ہے جے یو آئی اور پی ڈی ایم کسی سے مذاکرات کو ملک کے مفاد میں نہیں دیکھتی‘ پارلیمنٹ قانون پاس کر رہی ہے، ابھی وہ آئین بنا نہیں کہ آٹھ رکنی بنچ بنا کر ایک ہی نشست میں فیصلہ کر لیا‘ ہم سیاسی لوگ ہیں رائے رکھتے ہیں یہ تو نہیں ہوسکتا کہ جانوروں کی طرح جو چارہ ڈالیں قبول کر لیں گے۔ آئینی طور پر اختیارات تقسیم ہیں اس میں کیوں مداخلت کر رہے ہیں۔ الیکشن ممکن کے انتخابات سلب کر لئے گئے۔ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ہٹانا انتظامی معاملہ ہے۔ اسے تسلیم نہیں کیا جارہا، اگر یہ سپریم کورٹ ہے تو پھر اسے عدالتی مارشل لاءسے تعبیر کریں گے، پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ عمران سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے اور ہم اس سے مذاکرات کی باتیں کر رہے ہیں۔ پارلیمنٹ قوم اور عوام جیتے گی ہمارے کارکن عوام آج بھی میدانوں میں نکلنے کے لئے تیار ہیں۔ صرف چیف آف آرمی سٹاف کی طرف سے کافی نہیں بلکہ چیف جسٹس کو بھی کہنا چاہیے کہ وزیر اعظم کا ہر حکم تسلیم ہو گا‘ عمران لاڈلا تو نہیں ہوگا اس سے لاڈ کا فائدہ نہیں اپنا ہی منہ کالا کرنا ہوگا، اگر کوئی لاڈ کرتا بھی ہے تو اس سے کہتا ہوں کہ اس کو ناکامی ہوگی۔ ہر شعبے میں مداخلت ہو گی تو اسے عدالتی مارشل لاءکہیں گے۔ چیف جسٹس نے سارے اختیارات پر قبضہ کر کے عدالتی مارشل لاءلگا دیا۔ الیکشن کمشن کے اختیارات آپ نے سلب کر لئے‘ وکلاءکا ناکام شو ہے، عام آدمی مشکلات میں ہے۔ ہم نئے تجربات نہیں کر سکتے‘ جنرل (ر) فیض حمید کی کس کس بات پر روئیں‘ پندرہ‘ پندرہ وکیل اکٹھے ہو جاتے ہیں‘ وکلاءکا ایک ناکام شو ہے۔ پی ڈی ایم ایک قومی حکومت کی حیثیت رکھتی ہے۔ پارلیمنٹ جیتے گی ہم پہلے بھی سڑکوں پر آنے کے عادی ہیں‘ امریکہ‘ یورپ چاہے کوئی اور ادارہ ہو جو ان کیلئے حرکت کرے گا تو پھر سڑکوں پر ہوں گے۔ اس وقت محاذ آرائی سپریم کورٹ کی طرف سے ہے حکومت کی طرف سے نہیں‘ ماضی میں بھی ایمرجنسی کو سپورٹس نہیں کیا۔ عام آدمی کیلئے مشکلات ہیں‘ ایک سال میں بڑے میگا پراجیکٹ پر کام جاری ہے۔ ادھر مولانا فضل الرحمنٰ نے سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے ملاقات کی۔ ملکی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
فضل الرحمنٰ