بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
عید سے ایک روز قبل وزیراعظم میاں شہبازشریف کے شیڈول میں خلیجی ممالک کے سربراہان کو عیدالفطر کی مبارک باد ' وزیر خزانہ محمد اورنگرزیب کو آئی ایم ایف حکام سے واشنگٹن میں مذاکرات کے لیے روانگی اور بریفنگ کے ساتھ اسلام آباد میں دانش سکول کے لیے سائٹ وزٹ کرنا شامل تھی۔ سائٹ وزٹ کے دوران وزیراعظم نے انکشاف کیا کہ وطن عزیز میں آج بھی 2 کروڑ 60 لاکھ بچے سکول ایجوکیشن سے محروم ہیں، اتنی بڑی تعداد کی تعلیم سے محرومی المیہ ہے۔ نظام تعلیم کوقومی ضرورت کے مطابق راست کرنے کے لیے تعلیمی ایمرجنسی کا آپشن استعمال کرنا پڑے گا، میاں شہبازشریف نے مزید کہا کہ امراءکے لیے ایچی سن کالج بن سکتے ہیں تو غرباءاور متوسط طبقے کے بچوں کے لیے معیاری درسگاہیں کیوں نہیں بن سکتیں؟ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں جدید ہاو¿سنگ سوسائٹیاں بن رہی ہیں مگر کسی کو اچھے سکول اور اچھے کالجز بنانے کی فکر نہیں۔
دیر آید درست کے مصداق ہم وزیراعظم میاں شہبازشریف کی طرف سے نظام تعلیم پر توجہ دینے اور تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرنے کے فیصلے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں مگر ساتھ ساتھ تھوڑا سا گلہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ اس شکائت کا تعلق بیوروکیسی کی روائتی تساہل پسندی سے ہے۔ جناب وزیراعظم!! اڑھائی کروڑ بچوں کی تعلیم سے محرومی کے یہ اعدادوشمار آج کے نہیں۔یادش بخیر… ڈیڑھ برس قبل جب ایوان صدر میں عالمی خواندگی ڈے پر تعلیمی ایونٹ منعقد ہوا تو وزارت شعبہ پروفیشنل تعلیم کے حکام نے اس وقت کے صدر ڈاکٹر عارف علوی کے گوش گزار سکول ایجوکیشن سے محروم بچوں کی اتنی یہ تعداد ظاہر کی تھی؟ جواب میں سربراہ ریاست نے افسوس اور تاسف کے جذبات کے سوا کچھ نہیں کہا۔ وزارت تعلیم کے مستند ذرائع بتاتے ہیں کہ گزشتہ دس سال سے اعلی سطح کے اجلاسوں میں یہی اعدادوشمار کا جادو چل رہا ہے، ہم عرض گزار ہیں کہ وزیراعظم میاں شہبازشریف ایجوکیشن ایمرجنسی سے قبل تعلیمی پسماندگی کی اصل وجوہ ضرور معلوم کریں۔ کاکٹر صاحب کی نگران حکومت سے قبل پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کے اقتدار میں وفاقی وزیر تعلیم رانا تنویر تھے، آپ ان بزرگ سیاست دان کو بلائیں اور ان سے سولہ ماہ کی تعلیمی کاکردگی کی رپورٹ لیں ، ان سے یہ پوچھیں کہ انہوں نے ڈراپ چلڈرن کو سکول میں لانے کے لیے کیا اقدامات کئے؟ جناب وزیراعظم حقائق یہ ہیں کہ آج سکول ایجوکیشن سے محروم بچوں کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے تجاوز ہے ان میں سب سے زیادہ برے حالات صوبہ پنجاب کے ہیں یہاں دس برسوں کے دوران محسن نقوی' حمزہ شہباز شریف' چوہدری پرویز الہی اور خادم اعلی خود وزارت اعلی کے منصب پر سرفراز رہے ان صاحبان علم و حکمت سے بھی علم دوستی کا سوال پوچھا جاسکتا ہے؟
تعلیمی ایمرجنسی وقت کی ضرورت ہے مگر اس سے قبل ایسی جامع اور طویل مدتی حکمت عملی وضع کرنا بھی ضروری ہے جس سے زیر تعلیم اور فارغ التحصیل طلباءاور ان کا مستقبل روشن ہوجائے۔ ایک کروڑ گریجویٹ ملازمتوں کے لیے مارے مارے بھر رہے ہیں، تین کروڑ نوجوان عدم روزگار سے مایوس ہیں۔ہر سال ساڑھے چار کروڑ بچے مدارس سے فارغ التحصیل ہورہے ہیں یہ صرف دین کی خدمت کے لیے مدارس سے نکلے ہیں ان کیلئے روزگا ر بندوبست کرنا حکمرانوں کا فرض ہے۔ حکومت مدارس ایجوکیشن کے ساتھ ٹیکنیکل ادارے قائم کرکے ساڑھے چار کروڑ بچوں کو ہنرمند بنانے کا مشن شروع کرے تو بیروزگاری کا بوجھ بڑی حد تک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آپ امریکہ' برطانیہ'سوئٹزر لینڈ، جرمنی اور آسٹریلیا کی مثالیں دیکھیں وہاں مشنری سرگرمیوں میں مصروف رہنے والے سماج پر بوجھ نہیں بنتے۔ پڑوس ممالک بھارت اور بنگلہ دیش کو دیکھ لیں انہوں نے کس طرح مدارس ایجوکیشن کو سرکاری سرپرستی کے دھاگوں میں باندھا ہواہے۔ سب سے اہم بات پبلک اور پرائیویٹ پارٹنر شپ کی ہے ہم ان ہی کالموں میں عرض گزار ہوتے رہے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تعلیمی اداروں کو سرپرستی اور رہنمائی کے گلاب عطا کریں تو پرائیویٹ سیکٹر حکومت کا بڑا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں پرائیویٹ سیکٹر کو ٹیکس درٹیکس کی پالیسیوں نے ستم زدہ کررکھا ہے۔ایف بی آر سے میونسپل کارپوریشن تک ٹیکسوں کے بھر مار ناقابل بیان ہے۔کیا ایسے حالات میں تعلیمی ماحول مثالی اور قابل رشک رزلٹ کا حامل ہوسکتا ہے؟
وزیراعظم تعلیمی ایمرجنسی سے قبل ایچ ای سی اور وزارت تعلیم کے ساتھ تمام سٹیک ہولڈر کو آن بورڈ کریں حکام اور شخصیات کی شکایات سنیں، وجوہ تلاش کریں جس کے بعد فیصلہ کریں کہ خرابیاں اور مسائل کیسے دور ہوں گے؟ ہم نے درپیش مسائل کو روایتی انداز سے حل کرنے کی پیش بندی کی تو یاد رکھیں آئندہ پانچ برس بعد بھی سکول ایجوکیشن سے محروم بچوں کی تعداد یہی 2 کروڑ60 ہی دکھلائی جائے گی۔
آپ مانیں نہ مانیں یہ ہے آپ کا اختیار
ہم نیک وبد جناب کو سمجھائے دیتے ہیں