کنکریاں۔کاشف مرزا
پاکستان مشرق وسطیٰ میں جاری پیش رفت کو گہری تشویش سے دیکھ رہا ہے۔ کئی مہینوں سے، پاکستان نے خطے میں دشمنی کی توسیع کو روکنے اور غزہ میں جنگ بندی کیلیے بین الاقوامی کوششوں کیضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے اسرائیل کے خلاف ایران کے جوابی حملوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں مخاصمت میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں اور کشیدگی کو کم کرنے کیلیے کام کریں۔ یہ بیان سامنے آیا ہے جب ایران نے اسرائیلی سرزمین پر اپنے پہلے براہ راست حملے میں اسرائیل پر دھماکہ خیز ڈرونز اور میزائل داغے ہیں، جس سے مشرق وسطیٰ میں ایک بڑی کشیدگی کا خطرہ ہے۔ اسرائیل فوج نے کہا کہ ایران سے 100 سے زیادہ ڈرون لانچ کیے گئے، عراق اور اردن کے سیکیورٹی ذرائع نے درجنوں ڈرونز کو اوپر سے اڑتے دیکھا اور امریکی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے کچھ کو مار گرایا ہے۔ ایران نے اسرائیل کے خلاف میزائل اور ڈرون حملے اسلیے کیے تھے کہ اس نے یکم اپریل کو دمشق کے قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے خلاف جوابی حملہ کیا تھا جس میں پاسداران انقلاب کے سات افسران ہلاک ہوئے تھے، جن میں دو سینیئر کمانڈرز بھی شامل تھے۔ یہ واقعات ان صورتوں میں سنگین مضمرات کو بھی واضح کرتے ہیں جہاں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے قاصر ہے۔ اسرائیل اورحماس کے درمیان غزہ کی جنگ جو اب اپنے ساتویں مہینے میں ہے، نے خطے میں تناو¿ کو بڑھا دیا ہے، جو لبنان اور شام کے محاذوں تک پھیل گیا ہےاور یمن اور عراق تک دور دراز سے اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے۔ پاکستان، جو اسرائیل کو خودمختار ریاست کے طور پر قبول نہیں کرتا اور اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں رکھتا، نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ مداخلت کرے اور مشرق وسطیٰ میں جنگ بندی نافذ کرے۔ کئی دہائیوں سے، پاکستان بین الاقوامی سطح پر متفقہ پیرامیٹرز کی بنیاد پر ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرتا رہا ہے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو۔ اگرچہ، پاکستان نے اسرائیل-غزہ جنگ میں محتاط رویہ اپنایا، پاکستان نے مسلسل فلسطینیوں کیلیے انکی خواہشات کے مطابق علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا اور القدس شریف کو اسکا دارالحکومت بنایا۔ اب صورتحال کو مستحکم کرنے اور امن کی بحالی کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن پاکستان کیلیے، یہ صورت حال مشرق وسطیٰ کے بحران سے پیدا ہونے والے چیلنجزکا مو¿ثر طریقے سے جواب دینے کیلیے اپنی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں میں اصلاحات کا مطالبہ کرتی ہے۔ ان اصلاحات کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ مشرق وسطیٰ کا بحران مستقبل قریب میں کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ سیاسی عدم استحکام خطے کو دور کرتا رہے گا، غزہ کی جنگ ممکنہ طور پر مزید طویل تنازعات میں بدل جائے گی، جسکے تباہ کن انسانی نتائج بڑھیں گے۔ ایران اور جی سی سی ریاستیں خطے میں تنازعات کے مختلف تھیٹروں میں مخالف کیمپوں کی حمایت جاری رکھیں گی، جس سے انکے تعلقات منقطع رہیں گے یا دشمنی بھی۔ پاکستان کی زیادہ تر مشکلات اسکے معاشی مسائل کی وجہ سے ہیں، اگرچہ حال ہی میں پاکستان کی معیشت نے بہتری کے کچھ آثار دکھائے ہیں، لیکن یہ اب بھی جنگل سے باہر نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت کو متاثر کرنے والے بڑے ساختی مسائل میں سے ایک بیرونی ذرائع پر خاص طور پر امریکی غیر ملکی امداد اور ترسیلات زر پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اسطرح معیشت بیرونی جھٹکوں کا شکار رہتی ہے اور پاکستانی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ موجودہ بحران سے پاکستانی پالیسی سازوں کیلیے یہ پیغام گھر پہنچنا چاہیے کہ دوسری ریاستوں یا کثیرالجہتی اداروں پر بہت زیادہ اقتصادی انحصار کے ساتھ، ملک کو اپنے خارجہ تعلقات میں ایک آزادانہ طرز عمل اپنانا ہمیشہ مشکل ہو گا، خاص طور پر جب ایسا کرنا ممکن ہو اسکے عطیہ دہندگان یا اس سے زیادہ امیر اور طاقتور شراکت داروں کے مفادات کے خلاف ایک مضبوط اورمتحرک معیشت کسی بھی قوم کیلیے آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتی ہے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اسلیے تمام کوششوں کا رخ مضبوط معیشت کے ہدف کیطرف ہونا چاہیے۔ پاکستان کو جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک صورتحال میں تبدیلی کے ساتھ مشرق وسطیٰ کے مسئلے پر خصوصی توجہ دینے کیضرورت ہے۔ پاکستان کو بھی مسلم ریاستوں سمیت ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی بنیاد پر نظر ثانی کرنے کیضرورت ہے۔ مارچ 2003 میں عراق پر امریکی قیادت کے حملے کے بعد سے مشرق وسطیٰ ایک بہاو¿ کا شکار ہے، عرب بہار کے نتیجے میں حالات مزید بگڑ گئے۔ ان پیش رفتوں سے مشرق وسطیٰ میں جمہوری کھلے پن کے دور کے آغاز کی امید تھی۔ تاہم، انہوں نے اپنے نتیجے میں صرف سیاسی عدم استحکام اور جنگ ہی لائی ہے، حالانکہ وہ کچھ گہری ڈکٹیٹرشپ کو گرانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں بحران کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پاکستان کیلئے کئی پالیسی چیلنجز پیدا ہوئے ہیں: فرقہ واریت، پرتشدد انتہا پسندی اور دہشتگردی کا بڑھتا ہوا خطرہ، گھریلو پولرائزیشن اور اسکی اقتصادی ترقی کیلئے خطرات ان چیلنجز سے نمٹنے کیلیے ضروری ہے کہ ملک اپنی خارجہ اور ملکی پالیسیوں پر نظرثانی کرے۔ مشرق وسطیٰ کے بحران نے فلسطینیوں کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا ہے۔ چونکہ پورا مشرق وسطیٰ خطہ سیاسی افراتفری، تشدد اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں گھرا ہوا تھا، عالمی برادری کی توجہ فلسطینیوں کی حالت زار اور تیل کی دولت سے مالا مال خطے کے دیگر حصوں کے بحران کی طرف ہٹ گئی۔ عرب حکومتیں جو تاریخی طور پر فلسطینی کاز کی حمایت کرتی رہی ہیں، اپنے ہی مسائل میں الجھی ہوئی ہیں، عملی طور پر فلسطینیوں کو اسرائیلی مظالم کے سامنے اپنے حال پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کیلیے ایک سنگین چیلنج ہے جہاں کے عوام نے ہمیشہ فلسطینی کاز کو اپنے دل کے قریب رکھا ہے۔ معصوم فلسطینیوں کے خلاف کسی بھی بڑے پیمانے پر اسرائیلی مظالم،جو کہ مسئلہ فلسطین کے تئیں عرب حکومتوں کی بے حسی کے پیش نظر زیادہ امکان نظر آتا ہے، پاکستانی مسلمانوں کو مزید بنیاد پرست بنا سکتا ہے۔ 1970 کی دہائی کے اوائل سے، مذہب پاکستان کے مسلم دنیا بالخصوص تیل سے مالا مال GCC ریاستوں کے ساتھ تعلقات کی بنیاد بن گیا ہے۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حکمت عملی نے لاکھوں پاکستانیوں کیلیے ملازمتوں، اربوں ڈالر کی ترسیلات زر، بھاری مالی امداد اوربین الاقوامی فورمز پر سفارتی مدد کی صورت میں کافی منافع حاصل کیا۔ لیکن اس حکمت عملی کے منفی پہلو بھی تھے: فرقہ وارانہ تشدد اور بنیاد پرستی بڑی حد تک اسی حکمت عملی کا نتیجہ ہیں۔ چین اور روس کے ساتھ مثالی تعلقات استوار کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں پاکستان کی اپنی کامیابی مختلف مذہبی اور ثقافتی اقدار کی حامل، لیکن مشترکہ سٹریٹجک اور اقتصادی مفادات کی حامل دو ریاستوں کے درمیان دوستانہ اور باہمی طور پر فائدہ مند دوطرفہ تعلقات کی ایک اور اچھی مثال بن سکتی ہے۔ پاکستان کو کسی سرد جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے اور اس مسئلے پر دوست مسلم ممالک بالخصوص ایران اور سعودی عرب کے ساتھ کھل کر بات چیت کرنی چاہیے۔ پاکستان کو بھی ایران اور سعودی عرب کےدرمیان مفاہمت کی حمایت کرنی چاہیے تاکہ مسلم ریاستوں کے وسائل انکی باہمی جنگوں کی مالی امداد کے بجائے اپنے عوام کی بہتری کیلیے استعمال کیے جائیں۔ موجودہ اسٹریٹجک اسٹڈیز اور جیو اسٹریٹجک ماحول میں، یہ پاکستان کے مفادات کیلیے اچھی طرح کام کرے گا اگر وہ اپنی اندرونی طاقتوں جیسے کہ اپنی معیشت کی مسابقت اور ہنر مند افرادی قوت کو بنانے اور اس سے فائدہ اٹھانے پر بھی توجہ مرکوز کرے۔ وہ GCC ممبران سمیت کئی مسلم ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے میں ہندوستان کی کامیابی سے سیکھ سکتا ہے۔ پاکستان کو اپنے داخلی سلامتی کے آلات کی صلاحیتوں کی تعمیر پر بھی توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی ملکی سلامتی کو چیلنج کرنے والے خطرات کی بڑھتی ہوئی صفوں سے نمٹ سکے۔ اسے ترسیلات زر، CPEC سے متعلق سرمایہ کاری اور مجموعی اقتصادی پیشرفت سے حاصل ہونے والے مواقع کے حالیہ معاشی ونڈو کا استعمال کرنا چاہیے تاکہ اندرونی سلامتی کے چیلنجوں سے نمٹنے والی تنظیموں کو بہتر تربیت اور لیس کیا جا سکے۔ ملک کو اپنی ترسیلات زر کے پورٹ فولیو کو بڑھانے اور متنوع بنانے کیلیے اپنے کارکنوں کیلیے جارحانہ طور پر نئی غیرملکی منڈیوں کی تلاش کرنی چاہیے۔ اس سے سیاسی عدم استحکام یا معاشی سست روی کی وجہ سے کسی خاص خطے سے ترسیلات زر میں زبردست کمی کے منفی اثرات کو روکنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ ملکی طور پر، پاکستان کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کرنے کے لیے شفاف طریقہ کار تیار کرنا چاہیے تاکہ اگر انہیں واپس جانا پڑے تو انکے پاس کچھ نہ کچھ ہو۔ یہ GCC ممالک میں پاکستانی کارکنوں کیلیے خاص طور پر اہم ہے جو شمالی امریکہ اور مغربی یورپ میں اپنے ہم منصبوں کے برعکس میزبان ممالک کی شہریت حاصل نہیں کر سکتے، اور اسطرح انہیں کسی وقت پاکستان واپس جانا پڑتا ہے۔
حماس کو نیست و نابود کرنے کے بہانے غزہ پر اسرائیل کی جنگ نہ صرف ہزاروں عام فلسطینیوں کے قتل عام کا باعث بنی ہے بلکہ اس نے جیوسٹریٹیجک تسلسل میں لہریں بھی پیدا کی ہیں۔ مقامی طور پرجنگ کے طور پر جو منصوبہ بنایا گیا تھا، وہ جان بوجھ کر یا بصورت دیگر، ایک ایسے رجحان کی طرف ہو گیا ہے جو ایک علاقائی تھیٹر کی سطح پر چلتا ہے جس میں متعدد ممالک شامل ہیں۔ اسرائیل-فلسطین تنازعہ نے مو¿ثر طریقے سے دنیا کو دو کیمپوں میں تقسیم کر دیا ہے، جس سے متبادل انتخاب کی بہت کم گنجائش رہ گئی ہے۔ یہ صورتحال بنیادی طور پر سرد جنگ کے دور کی یاد تازہ کرنے والے جغرافیائی سیاسی نقشے کو دوبارہ زندہ کرتی ہے، جس میں زیادہ تر ممالک اسرائیل فلسطین کے معاملے پر اپنے روایتی موقف پر قائم ہیں۔ چونکہ تنازعات میں ملوث بڑے بین الاقوامی کھلاڑیوں کے ساتھ اہم مفادات داو¿ پر ہیں، اسلیے پاکستان کے فیصلہ سازوں نے اشتعال انگیز بیان بازی یا عجلت میں کام کرنے کے ممکنہ نتائج کو سمجھتے ہوئے، زیادہ سفارتی نقطہ نظر کا انتخاب کیا ہے۔ پاکستان کیلئے امکانات کا دائرہ اسطرح ظاہر ہوا: چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو متوازن کرنا، مملکت کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی سےرہنمائی حاصل کرنا؛ یا یوکرین اورغزہ کی جنگوں پرواضح موقف اختیار کرنا، اور امریکہ اور مغرب کے ساتھ صف بندی کرنا۔ ان اقدامات میں پاکستان کو اقتصادی چیلنجوں سے نمٹنے اور بڑی علاقائی اور عالمی طاقتوں کے درمیان آرام دہ پوزیشن حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ بلاشبہ، پاکستانی فیصلہ ساز نہیں چاہتے کہ پاکستان کو روس اور یوکرین جنگ جیسی صورتحال میں ختم ہو۔ تاہم، مشرق وسطیٰ کے حالیہ واقعات نے ان اختیارات کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ پاکستانی آبادی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے خیال کی مخالفت کرتی رہتی ہے۔ پاکستان نے اپنے وسیع تر سیاسی اور سفارتی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلیے توازن برقرار رکھا۔ اقتصادی بحران اور طویل مدتی خارجہ پالیسی کے اہداف نے اسلام آباد کو محتاط رکھا ہوا ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر مشکلات اسکے معاشی مسائل کی وجہ سے ہیں۔ اگرچہ حال ہی میں پاکستان کی معیشت نے بہتری کے کچھ آثار دکھائے ہیں، لیکن یہ اب بھی مشکل سے باہر نہیں ہے۔ پاکستان کی معیشت کو متاثر کرنے والے بڑے ساختی مسائل میں سے ایک بیرونی ذرائع پر بھاری انحصار ہے – غیر ملکی امداد اور ترسیلات اسطرح معیشت بیرونی جھٹکوں کا شکار رہتی ہے اور پاکستانی پالیسی ساز اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ موجودہ بحران سے پاکستانی پالیسی سازوں کیلیے یہ پیغام گھر پہنچنا چاہیے کہ دوسری ریاستوں یا کثیرالجہتی اداروں پر بہت زیادہ اقتصادی انحصار کے ساتھ، ملک کو اپنے خارجہ تعلقات میں ایک آزادانہ طرز عمل اپنانا ہمیشہ مشکل ہو گا، خاص طور پر جب ایسا کرنا ممکن ہو اسکے عطیہ دہندگان یا اس سے زیادہ امیر اور طاقتور شراکت داروں کے مفادات کے خلاف۔ ایک مضبوط اور متحرک معیشت کسی بھی قوم کے لیے آزاد خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتی ہے اور پاکستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ اسلیے تمام کوششوں کا رخ مضبوط معیشت کے ہدف کی طرف ہونا چاہیے۔ پاکستان کو بھی مسلم ریاستوں سمیت ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی بنیاد پر نظر ثانی کرنے کیضرورت ہے۔ پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ مسلم ریاستوں کے درمیان مفاہمت کی حمایت کرے تاکہ انکے وسائل آپسی جنگوں کی مالی معاونت کے بجائے عوام کی بہتری کیلیے استعمال ہوں۔ بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں، پاکستان کو اپنے بنیادی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے، جہاں ممکن ہو استحکام اور سٹریٹجک فائدہ حاصل کرنے کیلیے ہوشیاری کے ساتھ اپنے راستے پر چلنا چاہیے۔