گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
قارئین!پاکستان اس وقت سانحات اور اسکینڈلزکی زد میں ہے ۔ہر روز ایک نیا تماشا سانحہ بنا کر عوام کے سامنے پیش کر دیا جاتا ہے۔لیکن سمجھدار قومیں کبھی اپنے آپ کو تماشا نہیں بننے دیتیں۔گذشتہ روز سانحہ بہاول نگر کے نام سے ایک نیا تماشا اچانک ہی کھڑا ہو گیا۔حالانکہ دو وردی والے اداروں کے درمیان چھوٹی موٹی بات پر چپقلش ہو جانا کوئی مافوق الفطرت بات نہیں ہے۔ میں گزشتہ چالیس سالوں سے دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ اور مہذب ممالک میں سکونت پذیر ہوں اور وہاں پر اکثر ایسے چھوٹے موٹے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔کچھ عرصہ قبل امریکہ کی ایک چھاﺅنی میں فوج کے اندر کچھ افراد نے ایک دوسرے پر فائرنگ کر دی۔جس سے متعدد فوجی ہلاک بھی ہوئے۔اور اسی طرح یورپ اور دوسرے ممالک میں بھی فوج بمقالہ رینجر، بمقالہ پولیس اور دوسرے سیکیورٹی اداروں کے درمیان چپقلش ہو جاتی ہے،جسے کسی طور پر بھی خوش آئند نہیں کہا سکتا۔اور ان چیزوں کو سوشل میڈیا اور اخبارات میں اچھالنا ہماری ملکی سلامتی کے لیے یہ کتنا مضر ہے اس کا اندازہ ہے یہاں پر کسی کو؟قارئین کسی بھی ملک میں قانون کا احترام وردی کے ڈر کی وجہ سے ہی قائم رہتا ہے۔اور اسی طرح ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت بھی اسی وجہ سے قائم رہتی ہے کہ اس ملک کی افواج مضبوط ہو۔اور جب ہم وردی کا احترام ختم کر دیں گے تو بقول ایڈوولف ہٹلر ”اگر کسی ملک کو ختم کرنا ہوتو جنگ سے نہیں اس کی ملک کی فوج کا احترام عوام کی نظروں میں ختم کر دوتو وہ ملک خود بخود ختم ہو جاتا ہے“۔
یونیفارم پرسنل کا یونیفارم زیور ہی نہیں بلکہ عزت بھی ہوتی ہے۔زیور اور یونیفارم پہننے والا انکی اپنی جان کی طرح عزت کرتا ہے حفاظت کرتا ہے،پولیس اور پاک فوج کی وردی خود ان کے قوم کے لیے قابل فخر ہوتی ہے۔ہمارے ہاں پولیس اور پاک فوج پر ہمیشہ تنقید کی جاتی ہے۔ عزت اورتوقیر کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ توقیر کرنے والوں اور تحقیر کرنے والوں کی پرسنٹیج میں کمی بیشی نہیں ہوتی البتہ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ فوج کی اور پولیس کے گروہوں کی جانب سے اپنے لئے رویوں کو دیکھ کر توقیر اور تحقیر کرنے والے ایک دوسرے کی جگہ لیتے رہتے ہیں۔اس کو یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے، پرسوں یہ نعرہ لگانے والے جو لوگ تھے کل ان کی جگہ کسی اور نے لے لی اور آج کوئی اور ان کی جگہ پر آگیا ہے۔
دنیا کے بہت سے ممالک میں جن میں یورپ امریکہ کینیڈا حتی کہ بھارت بھی شامل ہے یونیفارم کی توہین کرنے کا، تحقیر کرنے کا سخت نوٹس لیا جاتا ہے۔امریکہ میں تو یونیفارم کی طرف یا یونیفارم پرسنل کی طرف بڑھنے والے شخص کو موقع پر ہی بغیر کسی انویسٹی گیشن کے گولی مار دی جاتی ہے۔آئے روز اس طرح سے شوٹ کرنے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔بھارت میں بھی یونیفارم کی تحقیر اور توہین کا تصور تک نہیں ہے۔ہمارے ہاں پولیس کی کتنی عزت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کسی بڑے شخص کی گاڑی روک لی جاتی ہے تو وہ پولیس والے کی وردی اتروا دینے کی نہ صرف دھمکی دیتا ہے بلکہ دھمکی پر عمل بھی کر گزرتا ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ عدالتوں میں وکلاءپولیس پر پل پڑتے ہیں۔بڑے شخص کی گاڑی روک لی جائے جو کسٹم پیڈ نہ ہو جس پر اپنی مرضی کی نمبر پلیٹ لگا دی گئی ہو، ظاہر ہے ایسے کام طاقتور لوگ کرتے ہیں اور روکنے والے کا تبادلہ تفتان اور تربت تک میں کروا دیا جاتا ہے۔
قانون کی حکمرانی قانون کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے اور قانون کا نفاذ قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمارے جیسے انسان ہی ہیں جب آپ نے ان کو پہرے داری کی ذمہ داری دی ہے تو پھر اختیار بھی دیا جانا چاہیے۔
جب کیٹگرائزیشن کی جاتی ہے تو پاک فوج پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی نگہبان ہے۔ سیاستدان نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں۔پولیس کا کام قانون پر عمل کرواناہے۔ عدلیہ اور پارلیمنٹ کا کام آئین کا تحفظ ہے۔اگر ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہیں تو کسی قسم کی نہ چپقلش رہے،نہ کسی قسم کے اختلافات سامنے آئیں اور نہ معاملات اس حد تک بگڑ جائیں کہ قومی سلامتی بھی داو¿ پر لگی نظر آئے۔
ہمارے ہاں قانون اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کا احترام باقی نہیں رہا اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم شعور نہیں رکھتے، اچھے خاصے پڑھے لکھے ہیں، سمجھدار ہیں جب کبھی دوسرے ممالک جاتے ہیں تو ہمارے جیسا قانون کا پابند کوئی اور کیا ہوگا مگر جیسے ہی جہاز سے ایئرپورٹ پر اترتے ہیں، ایئرپورٹ سے باہر آنے سے پہلے ہی قانون شکنی کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔دوسرے ممالک میں لائن میں بھی کھڑے ہوتے ہیں، ٹریفک کی خلاف ورزی بھی نہیں کرتے لیکن اپنے ملک میں لائن میں کھڑے ہونے کو توہین سمجھا جاتا ہے۔
بہاول نگر میں جو کچھ ہوا یہ انتہائی زیادہ افسوسناک ہے۔ آٹھ اپریل کو پاک فوج اور پولیس کے اہلکاروں کے مابین جو کچھ بھی ہوا اس کو کچھ لوگوں کی طرف سے بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور کچھ لوگوں نے اسے بالکل معمولی واقعہ قرار دے کر صرف نظر کرنے کی کوشش کی۔8 اپریل کو پولیس کی طرف سے کسی گھر پر ریڈ کیا گیا تھا۔ 10 اپریل کو معاملہ زیادہ بگڑ گیا اس کے بعد دو روز تک اس واقعہ پر مکمل خاموشی نظر آئی جبکہ 12 اپریل کی رات کو پاک فوج اور پولیس کی طرف سے وضاحت سامنے آئی۔اس دوران کئی قسم افواہیں اڑتی رہیں چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔انہی کے پیش نظر کچھ پولیس اہلکاروں کی طرف سے استعفوں کی باتیں سامنے آتی رہیں اور ایک آدھ نے اپنی یونیفارم جلا بھی دی۔یونیفارم جلانا اپنی کھال جلانے کے مترادف ہے۔ آخر کار نوبت یہاں تک کیوں پہنچی اس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ کیا واقعی شروع میں جو کچھ کہا گیا اس میں کوئی صداقت تھی یا پھر جو افواہیں پھیلائی گئی جو چہ میگوئیاں کی گئیں ان کی بنا پر پولیس کے لوئر رینکس میں اتنا رد عمل دیکھنے میں آیا۔12 اپریل کو آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ بہاول نگر واقعہ پر بے بنیاد پروپیگنڈا کیا گیا ہے۔حکومت کی طرف سے اس پر کہا گیا کہ بہاول نگر میں افسوسناک واقعہ جسے فوج اور پولیس حکام کی مشترکہ کوششوں سے فوری طور پر حل کرلیا گیا ہے۔پاک فوج شعبہ تعلقات عامہ کی ٹیم ذمہ داروں کا تعین کرے گی۔آئی جی پنجاب کی طرف سے اس پر کہا گیا کہ ملک دشمن کالعدم تنظیم واقعے کو بنیاد بنا کر اداروں کے درمیان ٹکراو¿ اور یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے کہ ہم دشمن کے پیچھے نہیں جائیں گے، پولیس جوانوں میں مایوسی پھیلانے کے لیے پرانے واقعات کی ویڈیوز کو پیش کیا گیا۔
پاک فوج اور پولیس کی مشترکہ ٹیم اس معاملے کی انویسٹی گیشن کر رہی ہے امید ہے کہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جائے گا اور یہ ایسا موقع نہیں ہے کہ اداروں کے مابین کسی قسم کی بھی کوئی مس انڈرسٹینڈنگ ہو جبکہ دشمن پاکستان کو دہشت گردی کا نشانہ بنائے رکھنا چاہتا ہے۔
بات ہم نے وردی کی توقیر سے شروع کی تھی۔ وردی پولیس نے پہنی ہو، فوج نے پہنی ہو یا نیم فوجی اداروں کے اہلکاروں نے پہنی ہو، ان سب کا ہر کسی پر احترام لازم ہے۔امریکہ کی طرح تو شاید نہ ہو سکے لیکن کسی حد تک اس طرز پر یونیفارم کی ریسپیکٹ کے لیے قانون سازی کر لینی چاہیے۔ پولیس کو بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر اس کو اس کا مقام کیوں نہیں دیا جاتا پچھلے دنوں کو مدنظر رکھتے ہیں تو جس طرح سے چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا وہ پولیس کے لیے کیسے عزت اور احترام کا باعث بن سکتا ہے۔
وردی کی توقیر اور ہماری ذمہ داریاں
Apr 16, 2024