اک ذرا آپ کو زحمت ہو گی۔

وغیرہ وغیرہ ……عبداللہ طارق سہیل۔

ایک پرانا لطیفہ ہے، آزادی سے بھی پہلے کا۔ گوجرانوالہ سے ایک پہلوان جی دلّی چلے۔ ٹرین پر بیٹھے۔ ٹرین پنجاب کے میدانوں کو عبور کرنے کے بعد جب پانی پت کے ریلوے سٹیشن پر پہنچی تو ایک دھان پان صاحب ، مرزا نستعلیق بیگ قسم کے سوار ہوئے۔ پانی پت آ جائے تو سمجھو دلّی دور نہیں۔ آگے سونی پت پھر دلّی۔ گویا پانی پت سے ہی دلّی والوں کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ تو مرزا نستعلیق بیگ قسم کے ان دھان پان صاحب نے دیکھا کہ اور تو کہیں جگہ نہیں ہے البتہ پہلوان جی کے دائیں بائیں تھوڑی تھوڑی جگہ ہے، وہ کھسک کر ایک طرف ہو جائیں تو میرے بیٹھنے کی جگہ بن سکتی ہے۔ چنانچہ وہ آگے بڑھے، جھک کر فرمایا، حضرت، ذرا سی زحمت دوں گا۔ پہلوان جی حیران ہو کر بولے، تم مجھے کیا دو گے؟۔ پہلوان جی کے نسبتاً پڑھے لکھے ساتھی نے بتایا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ کو تکلیف دوں گا۔ پہلوان جی بھڑک اٹھے، فرمایا ، اوئے، تو مینوں تکلیف دیں گا، مینوں؟۔ توں۔ اس کے بعد پہلوان جی نے کچھ اور ناقابل اشاعت قسم کے کلمات بھی ادا فرمائے، اسی قسم کے کلمات جن کے ادا کرنے کے جملہ حقوق ان دنوں پی ٹی آئی اور اس کے سوشل میڈیا کے حق میں کامل اور مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ یہاں محفوظ ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستان کی کوئی طاقت اس ’’حق‘‘ کو گزند نہیں پہنچا سکتی۔ پی ٹی آئی جب یہ کہتی ہے کہ ہم ’’حق‘‘ پر ہیں تو ان کا اشارہ اسی طرف ہوتا ہے۔ 
خیر، قریب ہی ایک اور دلّی والے بھی موجود تھے جو اتفاق سے ’’پنجاب‘‘ آشنا بھی تھے۔ پنجاب آشنا دلّی یو پی والے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک پنجاب آشنا کا شعر ہے کہ 
سنائی ایک کہانی جو ہیر رانجھے کی 
تو  اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا۔
انہوں نے پہلوان جی کو بتایا کہ حضرت ، ہم لوگ جس کسی کا بہت ادب کرتے ہیں تو ہم اسی طرح کہا کرتے ہیں اور ان صاحب کا مقصد یہ ہے کہ وہ آپ سے ذرا جگہ دینے کی درخواست کریں۔ یعنی
اک ذرا آپ کو زحمت ہو گی 
پہلوان جی دل کے بہت اچھے تھے، ایک دم نرم پڑ گئے۔ فرمایا، ست بسم اللہ، آئو جی آئو، ایتھے بیٹھو، یہ کہا اور ذرا سرک کر جگہ بنا دی۔ 
یہ لطیفہ کل پرسوں والے اس حملے کی خبریں پڑھ کر یاد آیا جس میں ایک ملک نے دوسرے ملک پر سینکڑوں میزائل اور ڈرون داغ دئیے لیکن اتنے زیادہ ہتھیاروں سے اسے ہوا کچھ بھی نہیں، بس بارہ آنے والا گلاس ہی ٹوٹا۔ لیکن اصل خبر یہ ہے کہ حملے سے پہلے امریکہ کو بتا دیا گیا تھا کہ ہم ایک بے ضرر سا حملہ کرنے والے ہیں، اجازت مرحمت فرمائی جائے، اک ذرا آپ کو زحمت ہو گی۔ ہماری پچھلے دنوں اس ملک نے ’’جئی تئی‘‘ کر دی تھی، بڑی سخت ’’بزّتی‘‘ ہوئی تھی، اپنے عوام کی نظروں میں سرخرو ہونا ہے، آپ کا کچھ جائے گا نہ اس ملک کا ، بس اک ذرا آپ کو زحمت ہو گی۔ 
امریکہ ’’زبان شناس‘‘ تھا، اجازت مرحمت فرما دی۔ اور ایسا دوسری بار ہوا ہے۔ ایک بار ، چند برس پہلے، اس ملک کا ایک نامی گرامی جرنیل امریکہ نے شام میں مار دیا تھا۔ اس ملک نے تب بھی ٹرمپ سرکار کو ایسی ہی درخواست کی تھی کہ ننّھا منّا سا حملہ کرنا چاہتے ہیں، اپنے فوجیوں کو کہیں کہ گھڑی بھر کیلئے اڈے سے نکل جائیں، اک ذرا آپ کو زحمت ہو گی اور امریکہ نے تب بھی اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ 
_____
اطلاعات کے مطابق سینکڑوں ڈرون طیارے اور درجنوں بلکہ بیسیوں کروز میزائل چلائے گئے۔ ڈرون کی تو سمجھ آتی ہے، پہلے ہی پتہ تھا کہ سب کے سب فضا ہی میں تباہ کر دئیے جائیں گے (البتہ یہ پتہ نہیں تھا کہ ان کی اکثریت اردن والے ہی مار گرائیں گے، انہیں ہدف والے ملک تک پہنچنے ہی نہیں دیں گے)۔ لیکن کروز میزائلوں کا کیا ہوا؟۔ان سب کو مار گرانا ممکن نہیں تھا چنانچہ اگر پچاس یا ساٹھ داغے گئے تو لگ بھگ آدھے تو جا کر گرے لیکن ہوا ان سے بھی کچھ نہیں۔ ہاں، ایک ائیر پورٹ کے رن وے پر گڑھے ضرور پڑے۔ باقی کہیں کوئی عمارت گری، نہ جہاز تباہ ہوئے، نہ کوئی چھا?نی اڑی، نہ ائیر پورٹوں کا خانہ خراب ہوا، کوئی جانور تک نہ مرا۔ 
ایسا تو تبھی ہو سکتا ہے جب میزائل ہتھیاروں کے بغیر چلا دئیے جائیں۔ یعنی ان میں وار ہیڈ نہ لگا ہو۔ وارہیڈ کے بغیر میزائل تو واٹر سپلائی والوں کے پائپ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا۔ پائپ سڑک پر گرے تو ڈھنگ سے گڑھا بھی نہیں پڑتا۔ 
حملے کے بعد کی تفصیلات سن کر میں نے یہی بات سوچی تھی۔ اب ، کالم لکھنے سے پہلے ٹویٹ دیکھے تو ایک میں یہ خبر تھی کہ سی بی ایس ٹی وی کے ایک پروگرام میں بتایا گیا کہ سات میزائلوں کا ملبہ دیکھا تو ان میں کوئی وارہیڈ نہیں تھے گویا میزائل نہیں تھے، انجن اور بیٹری والے پائپ تھے۔ پائپ بھیج رہے ہیں حضور ، اک ذرا آپ کو زحمت ہوگی!
_____
اب کیا ہو گا۔ پاکستانی تجزیہ نگار اپنے پرمغز تجزیوں کیلئے دنیا بھر میں پہلے نمبر پر ہیں۔ جب بھی کہیں لڑائی ہوتی ہے، چاہے یوکرائن میں ہو چاہے سوڈان میں، غزہ میں ہو یا لیبیا میں، یہ فوراً تیسری عالمی جنگ ہونے کی ’’پکّی‘‘ خبر سنا دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک بار شمالی کوریا کے صدر (ابھی کچھ ہی مہینے پہلے) روس گئے اور وہاں 24 گھنٹوں کیلئے غائب ہو گئے۔ یہ ’’سٹریٹجک غیابت تھی۔ لیکن ہمارے ہاں کے ایک ’’قیامت کی نشانیوں‘‘ میں پی ایچ ڈی کا درجہ رکھنے والے قیامت خیز تجزیہ نگار نے فوراً ہی اس میں امریکی ہاتھ ڈھونڈ نکالا اور اعلان فرما دیا ، اب تیسری عالمی جنگ کو کوئی نہیں روک سکتا۔ 
خطے میں جس قسم کا توازن، عربوں کو ’’اوقات‘‘ میں رکھنے کیلئے بالخصوص، امریکہ چاہتا ہے، زحمت دینے کا اجازت نامہ مانگنے والا ملک اسے بخوبی قائم رکھے ہوئے ہے۔ یہ جھڑپ کاریاں حساب دوستاں ہی کا ایک باب ہے۔ ایک ملک نہیں چاہتا کہ اجازت طلبی اور زحمت دینے کا طلب گار ملک شام اور لبنان میں ایک خاص لکیر سے آگے بڑھے۔ 
بس اتنی سی کہانی ہے، زیادہ سوچئے گا تو خواہ مخواہ آپ کو بھی زحمت ہو گی۔ 
امریکہ کے کسی حملے کی نوبت آنے کا امکان کم ہے۔ ہاں، درخواست گزار ملک نے متحدہ عرب امارات پر حملہ کیا کہ فاصلے کے حساب سے آسان ترین ہدف ہے تو جواب ملے گا، امریکہ خود دے یا امارات کے ذریعے دے۔ بات ایک ہی ہے۔ امارات میں امریکہ کا خطے بھر میں غالباً مضبوط ترین فوجی اڈہ ہے لیکن سخت جواب بھی ’’محدود‘‘ ہو گا یعنی مناسب مزاج پرسی سے آگے نہیں بڑھے گا۔ 
چنانچہ فی الحال تیسری جنگ عظیم سے ڈرنے یا دوسرں کو ڈرانے کی ضرورت نہیں۔ اس سے باز رہئے اگرچہ باز رہنے میں اک ذرا آپ کو زحمت ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن