خطِ غربت کی جانب بڑھتے ایک کروڑ انسانوں کا مستقبل؟۔

Apr 16, 2024

نصرت جاوید

برملا (نصرت جاوید )۔
نام لینے سے گریز ہی بہتر۔ چند مہینوں سے مگر اپنے سے بہت سینئر چند صحافیوں کے کالم غور سے پڑھ رہا ہوں۔ عمر کے آخری حصے میں وہ مجرموں کی طرح اعتراف کررہے ہیں کہ عمر بھر صحافت کی نذر کرنے کے باوجود وہ ’’سچ‘‘ دریافت کرنے میں ناکام رہے۔ ’’سچ‘‘ اگر جان بھی گئے تو اسے بیان کرنے کی ہمت نصیب نہ ہوئی۔ اپنے گناہوں کے اعتراف کے بعد وہ اپنی ہی عمر کے سیاستدانوں پر لعنت ملامت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ شدت سے البتہ قوم کو امید بھی دلائے چلے جارہے ہیں کہ پاکستان کی آبادی کا 60فی صد شمار ہوتے نوجوان اب ملک سنبھالنے کو بے چین ہیں۔ ’’نئی سوچ‘‘ کے حامل یہ نوجوان اخبار جیسے ’’فرسودہ‘‘ ذریعہ ابلاغ پر اعتبار نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ’’نئے خیالات‘‘گھر گھر پہنچارہے ہیں۔ہم سب کو سرجھکائے ان کی ’’استادی‘‘ قبول کرنا ہوگی۔ اپنے اقبال نے بھی تو اس خواہش کا اظہار کررکھا ہے کہ ’’جوانوں کو پیروں کا استاد کر‘‘۔
اپنے سے بہت سینئر صحافیوں کے تواتر سے بیان کردہ خیالات کو میں نے سنجیدگی سے لیا۔ انہیں اگرچہ گھر آئے اخبارات ہی کے ذریعے پڑھا تھا جنہیں وہ ’’فرسودہ‘‘ ذریعہ اظہار شمار کرتے ہیں۔ ’’نئے خیالات‘‘ کے حامل نوجوانوں کی بے پناہ اکثریت اگرچہ جس سیاستدان کو دیوانگی کی حد تک چاہتی ہے اس کا نام لکھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ عمر کے اس حصے میں عرصہ ہوا داخل ہوچکے ہیں جسے ’’بزرگی‘‘ کے خانے میں ڈالا جاسکتا ہے۔ انگریزی کا اگرچہ ایک محاورہ ہے جو عمر کو محض ایک ’’نمبر‘‘ یا ’’عدد‘‘ شمار کرتا ہے۔ اس کی بنیاد پرآپ کی سوچ کو یکسررد یا منظور نہیں کرتا۔
خواہ مخواہ کے پھکڑپن میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اعتراف کرتا ہوں کہ اپنے سے بہت سینئر صحافیوں کے تواتر سے بیان کردہ خیالات سے گھبرا کر میں نے فیصلہ کیا کہ عید کی چھٹیوں میں سوشل میڈیاپر کامل توجہ دیتے ہوئے ’’نئی سوچ‘‘ کے حامل نوجوانوں کے خیالات سے اپنے ذہن کو تازگی فراہم کرنے کی کوشش کروں گا۔ جو عہد باندھا تھا اس پر عملدرآمد میں پہلی مشکل یہ ہوئی کہ وطن عزیز میں ٹویٹر جو اِن دنوں ایکس کہلاتا ہے دن میں چند ہی لمحوں کے لئے فعال ہونے دیا جاتا ہے۔ اخبار کو ’’فرسودہ‘‘ ٹھہرانے اور سوشل میڈیا کو ’’نئے خیالات‘‘ کا ماخذ قرار دینے والے مجھ سے بہت سینئر صحافیوں نے مگر اپنی تحریروں میں شاذہی اس پلیٹ فارم کی بندش کا ذکرکیا۔ وہ اگر ’’نئے خیالات‘‘ کے فروغ کو اتنے ہی بے تاب ہیں تو کم از کم مشترکہ طورپر ایک ’’احتجاجی دستاویز‘‘ تیار کرنے کے بعد اسے ’’کھلے خط‘‘ کی صورت عوام کے روبرو لاتے ہوئے حکمرانوں سے اتنی فریاد تو کرلیں کہ ’’ایکس‘‘ جیسے پلیٹ فارموں کو فعال رہنے دیں۔ ’’ایکس‘‘ تو ’’مفسد‘‘ خیالات کو فروغ دینے کے الزام میں تقریباََ بند ہوچکا ہے۔ حکمرانوں کی نگاہ میں ’’فیک نیوز‘‘ اور ’’گمراہ کن‘‘ خیالات کو فروغ دینے والے دیگر پلیٹ فارم مگر اب بھی ہمارے ہاں متحرک ہیں۔ اپنے ذہن کو ’’تازگی‘‘ بخشنے کے لئے میں نے لہٰذا ٹک ٹاک اور انسٹاگرام سے رجو ع کیا تو وہاں لگی ’’رونق‘‘ سے اکتاگیا۔ فیس بک کو جب بھی کھولا تو کسی دور میں بہت مشہور رہی بھارتی اداکارہ نرگس کی تصاویر یکے بعد دیگرے میرے اکائونٹ میں نمودار ہونا شروع ہوگئیں۔ اس کے علاوہ مینا کماری اور مدھوبالا کے بارے میں معلومات کا انبار بھی جن کی مجھے طلب نہیں۔ فیس بک پر ’’سعادت حسن منٹو‘‘ کے لکھے ایسے خیالات بھی دیکھے ہیں جنہیں منٹو کا دیوانہ اور دیرینہ قاری ہوتے ہوئے میں ان سے منسوب کرنا مکروہ شمار کرتا ہوں۔ یوٹیوب ہی سوشل میڈیا کا واحد پلیٹ فارم نظر آیا جس کے ذریعے ’’نئے خیالات‘‘ سے ذہن کو تازگی نصیب ہوسکتی ہے۔
پیر کی صبح چھپے کالم سے ’’برملا‘‘ کے مستقل قارئین کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ ان دنوں میرا جی اسرائیل اور ایران کے مابین مستقل بڑھتی کشیدگی سے بہت گھبرایا ہوا ہے۔ کامل دیانتداری سے یہ اعتراف کرنا بھی لازمی ہے کہ اسرائیل اور ایران کے مابین کشیدگی سے گھبراہٹ کی بنیادی اورغالباََ واحد وجہ یہ خوف ہے کہ اگر ان دونوں ممالک کے مابین معاملات جنگ کی جانب بڑھتے رہے تو تیل کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ گزشتہ ہفتے سے عالمی منڈی میں تیل کا ایک بیرل 90ڈالر سے بڑھ کر تیزی سے 100ڈالر کے قریب پہنچنے کو بھاگ رہا ہے۔ عالمی منڈی پر نگاہ رکھنے والے چند ماہرین کو خدشہ ہے کہ ایران واسرائیل کے مابین کشیدگی برقراررہی تو پٹرول کے ایک بیرل کی قیمت 140ڈالر تک بھی پہنچ سکتی ہے۔
محدود آمدنی کا حامل پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے بنیادی فکر یہ لاحق ہے کہ اگر تیل کا ایک بیرل عالمی منڈی میں 90سے 100ڈالر کے درمیان معلق رہا تب بھی کروڑوں پاکستانیوں کے لئے زندہ رہنا محال ہوجائے گا۔سفید پوشوں کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے جائے گی اور وہ عالمی اداروں کی پیش گوئی کے مطابق ان ایک کروڑ پاکستانیوں میں شامل ہوا محسوس کریں گے جو خطِ غربت کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ایک کروڑ سفید پوشوں کا مفلسوں کے انبوہ میں شامل ہوجانے کا امکان دل دہلادیتا ہے۔ اس جانب مگر سوشل میڈیا پر چھائے ’’نئی سوچ‘‘ کے حامل ’’ذہن سازوں‘‘ کی توجہ مبذول ہی نہیں ہورہی۔
 جن سے ’’پیروں کا استاد‘‘ ہونے کی امید باندھی جارہی ہے سوشل میڈیا پر  وہ دوگرہوں میں تقسیم نظر آرہے ہیں۔ایک گروہ کا اصرار ہے کہ ’’54بہنوں کے واحد بھائی(ایران)‘‘نے صہیونی ریاست کو اس کی ’’اوقات‘‘ یاددلادی ہے۔دوسرا گروہ مصر ہے کہ ایران نے اسرائیل پر جو فضائی حملے کئے ہیں وہ محض ’’ڈرامہ‘‘ تھا۔ پنجابی محاورے والے ’’پھوکے فائر‘‘۔ شوبازی کو چلائے پٹاخے جن کا اسرائیل کو ذرہ برابر نقصان نہیں ہوا۔ دونوں گروہوں کی سوچ ملکی تعصب سے نڈھال ہے۔ ان کی بدولت میں ایران اور اسرائیل کے مابین کشیدگی میں اضافے کی حقیقی وجوہات کا کوئی نیا پہلو دریافت نہیں کر پا?ں گا۔ مبینہ طورپر نئے خیالات کے حامل ’’ذہن ساز‘‘ بلکہ مجھے بے حس تماشائیوں کی طرح کرکٹ یا فٹبال میچ کی کسی ایک ٹیم کی مداح سرائی سے مغلوب محسوس ہوئے۔ آوازیں کستے لونڈے لپاڑے۔ اس حقیقت سے قطعی لاتعلق کہ ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی پاکستان میں ایک کروڑ جی ہاں ایک کروڑ افراد کو عالمی اداروں کے حالیہ تجزیوں کے مطابق خط غربت سے بھی نیچے دھکیل سکتی ہے۔ ایک کروڑ انسانوں کے مستقبل سے ایسی لاتعلقی کے حامل نوجوانوں کو میں کس بنیاد پر ’’استاد‘‘ مانتے ہوئے اپنی عمر کو رائیگاں ٹھہراسکتا ہوں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ مجھ سے بھی بہت سینئر صحافی ’’عجز‘‘ کا منافقانہ ڈرامہ رچاتے ہوئے ’’نوجوانوں کو پیروں کا استاد کر‘‘ کاورد کرتے ہوئے درحقیقت سوشل میڈیا کے عادی ہوئے نوجوانوں سے زیادہ سے زیا دہ لائیکس اور شیئرز کے حصول کی ہوس میں مبتلا ہیں۔ ’’نئے خیالات‘‘ نہ تو انہیں نصیب ہوئے تھے اور نہ ہی ہماری نوجوان نسل کو مطلوب ہیں۔ تماش بینی اور پیالی میں طوفان دورِ حاضر کے تحفے ہیں۔ انہوں نے انسانوں کو سفاکانہ حد تک زندگی کے سنگین ترین مسائل سے بے گانہ بنارکھا ہے۔

مزیدخبریں