ہمارے یہ فیس بکیئے

Apr 16, 2024

سرفراز راجا

کہانی بلکہ یوں کہیں کہ طریقہ واردات بڑا دلچسپ ہے۔ ایک دوست سے طویل وقفے کے بعد ملاقات ہوئی یہ دوست ایک سرکاری افسر ہیں۔ گپ شپ کے دوران موبائل پر ایک تصویر دکھاتے ہوئے بولے انہیں جانتے ہیں،چہرہ کچھ شناسا سا لگا، کہا دیکھی دیکھی سی شکل ہے۔ بولے فیس بک پر دیکھی ہوگی یہ آپ کے فیس بک فرینڈ ہیں اور پروفائل کے مطابق آپ کے پیٹی بھائی بھی۔ یعنی صحافی۔ پوچھا ہوا کیا ہے۔ کہنے لگے ایک روز یہ میرے پاس آئے پی اے نے بتایا کوئی میڈیا والے  ہیں ملنا چاہتے ہیں۔ اندر بلالیا۔ ان صاحب نے بتایا کہ وہ صحافی ہیں ساتھ ہی کوئی غیر مانوس سا ادارہ بھی بتایا اور کچھ صحافتی تنظیموں کے عہدیدار ہونے کا تذکرہ بھی کیا۔ کام پوچھا تو بولے ویسے ہی یہاں آیا تھا سوچا آپ سے سلام دعا کرلی جائے۔ اسی دوران اس نے نائب قاصد کو بول کر وہاں بیٹھے بیٹھے کچھ تصاویر بنوالیں اور تصاویر بنواتے ہوئے اس نے کچھ زیادہ بے تکلفی دکھانا شروع کردی جیسے کوئی پرانے جاننے والے ہیں۔ بیٹھے بیٹھے فیس بک پر فرینڈ ریکویسٹ بھیجی اور فوری ایڈ کرنے کی درخواست کی۔ پھر وہ صاحب وہاں سے چلے گئے۔ کچھ دن بعد اپنے ایک سابق کولیگ سرکاری افسر سے ملاقات ہوئی تو اس نے بتایا کہ آپ کے ایک دوست آئے تھے ان کا کام میں نے کردیا تھا۔ کون سے دوست ؟نام پوچھا تو اسے بھی یاد نہیں تھا۔ پھر اس نے فیس بک پر اس کی وہی تصویر دکھائی جو میرے دفتر میں بنائی گئی تھی اور ساتھ لکھا تھا پیارے بھائی۔۔۔ کیساتھ ،حیرانی بھی ہوئی اور پریشانی بھی۔ سوچا یہ آدمی معلوم نہیں اور کتنے دوستوں کے سامنے یہ تصویر کیش کروائے گا۔ بحرحال ہم نے اب ایسے لوگوں کا نام ڈال دیا ہے فیس بکئے اور ان سے محتاط ہوگئے ہیں۔ اس دوست نے تو یہ کہانی ہنستے ہنستے سنائی لیکن شرمندہ کرتی چلی گئی۔ کہتے ہیں کہ کسی بااثر شخص کیساتھ تصویر بناکر اس کی تشہیر کرنا بھی ذہنی غلامی کی ایک شکل ہے لیکن ہمارے ان فیس بکیوں کیلئے تو یہ کامیابی کا ایک ذریعہ ہے، فیس بک کا آغاز تو 2002ء میں ہوا جب امریکی ہاورڈ یونیورسٹی کے کچھ طالب علموں نے ایک دوسرے سے رابطے میں رہنے کیلئے دی فیس بک کے نام سے ایک سوشل میڈیا نیٹ ورک تشکیل دیا جس میں بعد ازاں دیگر تعلیمی اداروں کے طلبا و طالبات بھی شامل ہوتے گئے اور پھر فیس بک دنیا بھر میں پھیل گئی۔ 
سماجی رابطے کے دیگر پلیٹ فارمز بھی ہیں جو دنیا میں فیس بک سے زیادہ موثر سمجھے جاتے ہیں ہمارے یہاں انسٹا گرام اور ایکس سابقہ ٹوئیٹر بھی استعمال کیا جاتا ہے انسٹا گرام زیادہ تر شوبز ستارے یا دیگر مشہور شخصیات استعمال کرتی ہیں جبکہ ایکس بھی ایک خاص اور نسبتا پڑھا لکھا طبقہ استعمال کرتا ہے لیکن فیس بک تو ہمارا عوامی نیٹ ورک ہے گاؤں دیہات ،بچے بزرگ سبھی کی صبح کا آغاز اور دن کا اختتام یہاں حاضری لگوا کرہی ہوتا ہے۔ خوشی غمی کے اعلانات بھی اب یہیں کئے جاتے ہیں،کچھ تو کھانے پینے سونے جاگنے سمیت اپنے ہر کام کی تفصیل جب تک یہاں ڈال نہ دیں ان کا کام مکمل ہی نہیں ہوتا۔ کچھ تو کام کرتے ہی اسی لئے ہیں کہ فیس بک پر ڈالا جاسکے اور ایسے بھی ہیں جو کام کرتے بھی نہیں اور فیس بک پر تشہیر کردیتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق سوشل میڈیا نوجوانوں میں شدید احساس کمتری کا باعث بن رہا ہے وجہ یہ ہے کہ لوگ یہاں اپنی زندگیوں کے خوشی کے لمحات کو پوسٹ کرتے ہیں اور اکثر دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ سب کی زندگیاں اچھی گزر رہی ہیں۔ بس وہ پیچھے رہ گئے ہیں، اکثر خیال آتا ہے کہ اگر یہ فیس بک نہ ہوتی تو بہت سے لوگ جن کو فیس بک جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے ہی زندہ رکھا ہوا ہے ، نجانے وہ کہاں ہوتے۔ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز دنیا بھر میں استعمال کئے جاتے ہیں ان کا بڑا مثبت استعمال کیا جاتا ہے اور منفی استعمال بھی کم نہیں حقیقت میں سوشل میڈیا بالخصوص فیس بک کسی کی شخصیت کو کھول کر رکھ دیتا ہے اسی لئے اب تو کئی اہم اداروں کے انٹرویوز ، غیر ملکی ویزوں کے حصول اور رشتوں تک کیلئے بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مانیٹرنگ اور جانچ ہڑتال کی جاتی ہے اور ان کے ذریعے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کسی شخص کا مذہبی سیاسی رجحان کیا ہے اس کی شخصیت کس قسم کی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ہمارے یہاں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی اکثریت ایسی ہی ہے جیسے کوئی اناڑی ڈرائیور، گاڑی سڑک پر لے آئے لیکن نہ ہی گاڑی کے متعلق کوئی زیادہ معلومات ہوتی ہیں نہ ٹریفک رولز کا ادراک ،اور ایسا ڈرائیور اپنے علاوہ سڑک پر گاڑی چلانے والے باقی لوگوں کو بھی نقصان پہنچا سکتا ہے ،سوشل میڈیا کا استعمال جس قدر بڑھ چکا ہے اور جسطرح یہ ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے اس کے استعمال میں احتیاط بھی اتنی ہی ناگزیر ہوچکی ہے،اس کا مثبت استعمال بہت ہے لیکن منفی استعمال کرنے والے بھی کم نہیں،سوشل میڈیا کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ آپ ایک چوک میں کھڑے ہیں ہزاروں لوگوں کی نگاہوں کے سامنے جن میں سے اکثر کو آپ جانتے اور پہنچاتے نہیں، کہنے سننے اور کرنے میں بہت احتیاط ناگزیر ہوتی ہے اور یاد رکھیں کہ یہاں ان ‘‘فیس بکیوں ‘‘ کی بھی کمی نہیں جن کا ذریعہ واردات یہی سوشل میڈیا ہے۔

مزیدخبریں