اللہ کی راہ میں کام کرنے والی رخسانہ قیوم 

 بقول حضرت علی علیہ اسلام کے انسانیت بہت بڑا خزانہ ہے۔ اسے لباس میں نہیں بلکہ انسان میں تلاش کرو۔ مگر افسو س سے لکھنا پڑتا ہے کہ اس افراتفری کے دور میں ہر ایک کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔
انسانیت کے بارے میں سوچنا اور لوگوں کی حاجت روائی کرنے کا ہوش نہیں ہے۔
مہنگائی صرف پاکستان میں ہی نہیں مگر تمام ملکوں میں اس کا گراف اونچا ہو رہا ہے۔ اس ملک میںمہنگائی کی وجہ سے غریب لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ روٹی کیلئے لوگ ترس رہے ہیں۔۔۔۔لیکن باہر کے ملکوں میں مہنگائی دن بدن بڑھ رہی ہے۔۔۔۔ مگر اس کو مدنظر رکھتے ہوئے۔۔۔۔کم از کم ان کیلئے روٹی کا بندوبست اور رہنے کیلئے شیلٹر کا انتظام ہے۔ مگر یہاں پر ایسا کوئی نظام ابھی تک رائج نہیں ہوا کہ ان کو اس طرح کی سہولتیں مہیا کی جائیں اور ثابت کریں کے ہم مسلمان ہیں۔ مگر باہر کے ملکوں میں جن لوگوں نے کلمہ طیبہ نہیں پڑھا وہ مسلمانوں سے برتری لے گئے ہیں۔ بقول مولوی صاحبان کے انہوں نے کلمہ طیبہ نہیں پڑھا وہ بخشے نہیں جائیں گے۔
مولوی صاحبان نے یہ کہہ تو دیا مگر باہر کے لوگ جو مسلمان نہیں وہ انسانیت کا بھلا کر رہے ہیں اور مسلمانوں سے برتری لے گئے ہیں۔ کیاہمارے وہ مسلمان بخشے جائیں گے جو رمضان شریف کے آنے سے پہلے ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں تاکہ مہنگے داموں روزوں میں بیچ سکیں۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ عبادت بھی کرتے ہیں۔ نمازیں اور باقاعدہ روزے رکھتے ہیں۔۔۔عمرے کرتے ہیں۔۔۔۔اور سوچتے ہیں کہ ہم بخشے جائیں گے۔ مگر یہ نہیں سوچتے اللہ کی خوشنودی کیلئے اچھے کام کریں اس کی مخلوق کی تکلیفیں دور کریں۔۔۔۔تاکہ آخرت ان کی سنور جائے۔
اس ملک میں ایسے لوگ بھی ہیں۔۔۔۔جوبھرپور اسلام کی راہ میں چل پڑے ہیں۔۔۔۔نہ صرف مرد حضرات ہیں۔۔۔۔بلکہ خواتین بھی نیکی کا کام کر رہی ہیں۔۔۔۔ان میںرخسانہ قیوم کا نام سر فہرست ہے۔ بہت سالوں سے میری ان کے ساتھ دوستی ہے اکثر میں جاتی تھی تو دیکھا کرتی تھی اس کے اندر انسانیت کا جذبہ بہت موجود تھا۔ وہ اکثر کہا کرتی تھی کہ میں غریب لوگوں کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ پھر رفتہ رفتہ اس نے چھوٹے پیمانے سے لوگوں کی پریشانیاں اور اللہ کی مخلوق کی تکلیفیں دور کرنے کی ٹھانی اور ایک چھوٹا سا آفس اپنے گھر میں ہی بنا لیا۔۔۔کافی عورتیں ان کے پاس آتیں ان کی پریشانیاں بڑے غور سے سنتی اور ان کی جتنا ہو سکے حاجت روائی کرتیں۔۔۔۔۔اور اپنے آپ کو اس نے لوگوں کی حاجت روائی کیلئے وقف کر لیا۔
 میں اس ماہ رمضان میں اس کی خدمات کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہی تھی۔۔۔اس نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دن رات ایک کر دی۔۔۔۔میں سوچنے لگی کہ آج بھی اس دور میں نیک لوگ ہیں جس کی بدولت یہ ملک قائم دائم ہے۔ ایسے کئی اور لوگ بھی ہوں گے جن پہ اللہ اتنا مہربان ہو گا۔ جب بھی میں اس کے آفس میں جاتی تو میں کبھی کبھی اس کو کہتی ہوں۔۔۔یہ کام انتہائی مشکل ہے لیکن۔۔۔۔تمہیں مشکل نہیں لگتا تو جواب دیتی ہے۔۔۔۔’’یہ صرف اور صرف اللہ کی راہ میں کرتی ہوں۔۔۔۔مشکلیں حل ہو جاتی ہیں بس یہ یقین اور بھروسہ ہونا چاہیے کہ اللہ ساتھ ہے۔ تمہیں کیا بتائوں غریب اور نادار لوگوں کیلئے جو بھی کام کرنا چاہوں تو میں اللہ سے دعا کرتی ہوں تیری خوشنودی کے لئے میں یہ کام کر رہی ہوں میری مدد فرما تو وہ کام جھٹ سے ہو جاتا ہے۔۔۔۔یہ صرف اور صرف اللہ کرواتا ہے۔۔۔۔میں خود بھی حیران ہو جاتی ہوں‘‘۔ ۔۔۔۔۔ا س ماہ رمضان میں ہزاروں لوگوں کی افطاریاں کرواتی رہی ہوں اور مجھے جو خوشی حاصل ہوتی تھی وہ لفظوں میں بیان نہیں کر سکتی۔۔۔۔اور کبھی کبھی میں اس سے پوچھتی ہوںکہ ہر وقت تم غریب اور نادار لوگوں کیلئے کام کرتی ہو تھک نہیں جاتی۔۔۔۔۔یہ اظہار کبھی نہیں کرتی کہ میں بہت تھک گئی ہوں۔۔۔۔ماہ رمضان کے دوران بے شمار لوگوں کی افطاریاں کرواتی رہی تھی جنت الفردوس کے بچوں کی احسن طریقے سے مدد کرتی رہی جو بھی غریب اپنے بچوں کیلئے عید کے کپڑوں کا سوال کرتی تو وہ اس کی مدد ضرور کرتیں۔ مگر مہنگائی بد دستور مسلسل برقرار رہی۔ غریب اور نادار لوگوں نے کس طرح روزے رکھے یہ صرف اللہ کو ہی معلوم تھا۔
میری دعا ہے کہ ہمارے تاجروں کو اللہ ہدایت دے۔۔۔۔اگر خدائی مخلوق کیلئے وہ نیکی کا جذبہ رکھیں گے اور ان کی حاجت روائی کریں گے تو خدا ان کو اور بھی نوازے گا۔۔۔۔نئی حکومت آئی ہے۔۔۔۔۔اور ایک دعا میں اور کروں گی کہ اللہ ان کے دلوں میں بھی ۔۔۔۔نیکی اور انسانیت کا جذبہ پیدا کرے تاکہ وہ بھی باہر کے ملکوں کی طرح انسانیت کے بھلے کا سوچیں۔۔۔۔ آمین۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن