بارشوں نے بلوچستان اور خیبر پی کے میں تباہی مچا دی
جب انسان ماحول کے خلاف، فطرت کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے نہیں سوچے گا تو پھر فطرت بھی جوابی وار کرنے میں رتی بھر تامل نہیں کرے گی۔ اب یہی دیکھ لیں مارچ سردی بارش اور برف باری کے خاتمے کا مہینہ ہوتا ہے۔ گرمی کا آغاز ہو جاتا ہے مگر چند سالوں سے موسمیاتی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس مہینے میں بارش اور برفباری ہونے لگی ہے۔ وہ بھی اچھی خاصی، اس کے نتیجے میں سیلاب آ رہے ہیں اس وقت پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو بدترین ماحولیاتی تبدیلیوں اور موسمیاتی خطرات کا شکار ہیں۔ انہی کی وجہ سے ملک کی معاشی حالت بھی دگرگوں ہے۔ مسلسل کئی سالوں سے سیلاب کی وجہ سے معیشت تباہی کی طرف گامزن ہے۔ اس کے باوجود حکمران ان حالات کے مطابق پالیسیاں بنانے اور مشکلات پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔ کم از کم آبی ذخائر تعمیر کر کے ڈیم بنا کر بند باندھ کر سیلابی پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے انسانی آبادیاں بھی اور کھیت کھلیان بھی پانی کی زد میں آنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ پانی کی قلت سے نجات مل سکتی ہے۔ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہو سکتی ہے۔ مگر ہمارے سیاستدانوں کو ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے سے فرصت ملے تو وہ ان مسائل کی طرف بھی کوئی توجہ دیں۔ سیلاب سے درجنوں دیہات متاثر ہوتے ہیں طوفانی بارش سے فصلوں اور باغات کو نقصان ہو رہا ہے۔ اب تو یہ سلسلہ پنجاب اور سندھ تک پہنچ رہا ہے جہاں سیلاب زیادہ تباہی مچاتا ہے۔ خدا کرے یہ سلسلہ زیادہ دراز نہ ہو اور ہمارے حکمران بھی اس کال چکر سے نکلنے کی کوئی راہ نکالیں ورنہ خاکم بہ دہن، قرضوں کے دلدل میں ہم ڈوبتے ہوئے اپنا وجود تک کھو سکتے ہیں۔
٭٭٭٭
سندھ میں سب سے زیادہ والدین نے پولیو ویکسین پلانے سے انکار کیا۔
کئی دہائیوں سے پولیو کے خلاف مہم چلانے کے باوجود حیرت کی بات ہے ہم ابھی تک لوگوں کو اس کی افادیت سے آگاہ نہ کر سکے اور آج بھی ملک بھر میں لاکھوں بچے پولیو سے بچائو کے قطرے پینے سے اس لیے محروم ہیں کہ ان کے والدین یہ قطرے پلانے سے انکاری ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 63 ہزار سے زیادہ والدین نے بچوں کو قطرے پلانے نہیں دئیے اس میں زیادہ تعداد 36 ہزار کے قریب سندھ کے لوگوں کی ہے۔ خدا جانے یہ کیسے والدین ہیں جنہیں اپنی اولاد کی معذوری کا بھی دکھ نہیں۔ یہ لوگ آج بھی نیم خواندہ اور کم علم جاہلوں کی باتوں میں آ کر ان حفاظتی قطروں سے بدظن ہیں جو ان کے نزدیک ایک شیطانی مغربی سازش ہے۔ اس سے اولاد پیدا کرنے کی صلاحیتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اب معلوم نہیں ایسا کونسا لائحہ عمل بنایا جائے کہ ایسے جاہلوں کی افواہوں کا توڑ نکل سکے۔ بہتر ہے ایسا کرنے والے والدین کے شناختی کارڈ بلاک کئے جائیں۔ انہیں جرمانہ کیا جائے۔ ایسے بچوں کو زبردستی قطرے پلائے جائیں اور ان کے والدین کے صحت کارڈ اور بے نظیر سپورٹ پروگرام و دیگر امدادی کارڈ بلاک کئے جائیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ ایسا نہ کرنے والوں کو اب کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔ اس طرح وہ بچوں کو قطرے پلانے پر آمادہ ہو سکتے ہیں۔ یہ عجب سینہ زوری ہے۔ ایک طرف ہم روتے ہیں کہ بیماریاں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں دوسری طرف ہم اپنے بچوں کو خطرناک بیماریوں سے بچانے کے لیے مفت ملنے والی ویکسینیشن سے بھی استفادہ نہیں کرتے۔ اب ایسے جاہلوں کو سختی سے سمجھانے کا وقت آ گیا ہے۔
٭٭٭٭
یمن کے بعد ایران کے حملے نے امریکہ کو پریشان کر دیا۔
اگر اسرائیل کی طرف سے شام میں ایرانی سفارتخانے پر حملہ جائز ہے اور اس سے عالمی امن کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا تو پھر ایران کی طرف سے جواب میں اسرائیل پر ڈرون اور میزائل حملے کیوں امریکہ اور یورپی دنیا کو ناگوار گزر رہے ہیں۔ خود دنیا بھر میں بار بار اسرائیل سے کہا گیا کہ وہ فلسطینی غزہ میں انسانیت کا قتل عام بند کرے۔ اس نے کونسا اس امن کی آواز پر لبیک کہا ہے۔ ویسے بھی ایران ڈرونز اور میزائلوں کی اکثریت امریکی ائیر ڈیفنس سسٹم کی وجہ سے فضا میں ہی تباہ کر دی گئی۔ اسرائیل میں بہت کم نقصان ہوا۔ پھر بھی اسرائیلی حمایتیوں کو اپنے راج دلارے کی پڑی ہوئی ہے کہ اسے کیسے بچایا جائے۔ امریکہ نے تو کھلم کھلا کہا ہے کہ اگر ایران نے حملہ کیا تو امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر جوابی کارروائی کرے گا۔ دراصل اس وقت امریکہ کو زیادہ امید نہیں تھی کہ یمن کے بعد اب ایرا ن بھی اس کے لیے بڑی مصیبت لے کر اس کے سامنے آ سکتا ہے۔ یمن والے سمندری راستوں پر قابض ہیں اب ایران والے فضائی راستے سے اسرائیل پر قہر بن کر ٹوٹ رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں یک نہ شددوشد۔ اگر اب بھی امریکہ اور یورپ والوں نے عقل کا دامن نہیں تھاما اسرائیل کو لگام نہ دی تو کہیں اسلامی ممالک بھی بگڑ نہ جائیں پھر یہ سہ شد والا معاملہ کون سنبھالے گا۔ نہ اقوام متحدہ نہ او آئی سی اس آگ پر قابو پا سکے گی۔ یوں تیسری عالمی جنگ یا آخری ہولناک جنگ اس کرہ ارض پر زندگی کے خاتمے کا اعلان کرتی نظر آئے گی۔
٭٭٭٭
میونسپلٹی والے بھکاریوں کو جھاڑو دے کر صفائی پر لگا کر تنخواہ دیں۔ بشریٰ انصاری۔
یہ بشریٰ جی کی خوش فہمی ہے کہ اس طرح یہ مفت خور مافیا جھاڑو پکڑ کر کام کرے گا۔ ارے بابا ان کے پاس تو اتنا سرمایہ ہے کہ یہ ہم جیسے لوگوں کو بھی ماہانہ تنخواہ یا روزانہ کی دیہاڑی دے کر یہ کام بھی ہم سے کروائیں گے اور خود پہلے کی طرح پھر بھیک مانگتے نظر آئیں گے۔ ہماری کسی میونسپلٹی کے پاس اتنی طاقت نہیں کہ وہ ان لاکھ پتی فقیروں کو بھیک مانگنے سے روک سکے، انہیں باعزت روزگار پر لگا سکے۔ ویسے آئیڈیا تو بہت اچھا ہے۔ مگر مفت خوروں کو یہ راس نہیں آتا۔ آج بھی صفائی کرنے والے ورکروں نے آگے ملازم رکھے ہوئے ہیں جو آ کر ان کی جگہ کام کرتے ہیں اور معاوضہ لیتے ہیں۔ یوں یہ کام بھی ٹھیکیداری کی بنیاد پر ہی صفائی کرنے والے کر رہے ہیں۔ عید کے دنوں میں رمضان کے آخری عشرے میں تو یوں لگتا تھا جیسے ہر شہر اور دیہات میں ڈاکوئوں یا فقیروں کا راج قائم ہے۔ دن کو بھکاریوں اور رات کو ڈاکوؤں نے ناک میں دم کئے رکھا۔ کوئی بھی شہری ان کی دست درازیوں سے محفوظ نہیں تھا۔ اس سے لگتا تھا سارا ملک ہی فقیر بن گیا ہے۔ گرچہ عالمی سطح پر ہم انٹرنیشنل گداگر کے طور پر ہی مشہور ہیں۔ ہمارا اپنا امیج بھی فقیروں کا ہے۔ کیا امیر کیا غریب سب ہر وقت مانگتے نظر آتے ہیں کوئی ٹیکسوں میں رعایتیں مانگتا ہے کوئی روٹی پانی گیس بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی دہائی دیتا ہے۔ کوئی کھل کر لوٹ مار کی اجازت طلب کرتا ہے۔ بہرحال اب یہ پلاننگ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان فقیروں کی فوج ظفر موج کو کس طرح کام کاج کی عادت ڈال کر بھیک مانگنے سے روکتے ہیں۔ ہمارے دین نے بھیک مانگنے والوں کو پسند نہیں کیا۔ ایک ہم ہیں کہ ہر جگہ ہر ایک کے سامنے دست سوالی دراز کرنے سے باز نہیں آتے اور ذرہ بھر بھی نہیں شرماتے۔
٭٭٭٭