ایران نے شام کے دارالحکومت دمشق میں اپنی سفارتی عمارت پر دہشت گرد ریاست اسرائیل کی جانب سے یکم اپریل کو کیے گئے حملے کے بدلے میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ڈرونز اور میزائلوں سے جوابی کارروائی کرنے کے بعد اعلان کیا ہے کہ ابھی فوجی آپریشن ختم کیا جارہا ہے لیکن اگر اسرائیل نے دوبارہ غلطی کی تو نتائج بہت برے ہوں گے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اسرائیل اور اس کے اتحادی ملک امریکا کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس کے میزائل حملوں کے جواب میں کسی بھی ’غیر ذمہ دارانہ‘ ردعمل سے باز رہیں۔ اپنے بیان میں ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ اگر اس حملے پر صہیونی ریاست اور اس کے حامی ممالک نے جوابی کارروائی کی تو فیصلہ کن اور پہلے سے بھی زیادہ سخت جواب دیا جائے گا۔ واضح رہے کہ ایران نے جس اسرائیلی حملے کے بعد جوابی کارروائی کی تھی اس حملے میں ایران کے دو جرنیل اور پانچ عسکری مشیر جاں بحق ہوگئے تھے۔
ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل پر 300 سے زائد ڈرونز اور بیلسٹک میزائل فائر کیے گئے جن کے ذریعے ناجائز صہیونی ریاست کی درجنوں تنصیبات کو کامیابی سے ہدف بنایا جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران کے تمام ڈرونز فضا میں ناکارہ بنادیے گئے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل نے حماقت کرتے ہوئے جواباً حملہ کرنے کی کوشش کی تو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانے کے لیے تیار رہے۔ ایرانی دعوے کے مطابق، ایران نے اسرائیل کے دارالحکومت تل ابیب کے علاوہ دفاعی تنصیبات اور گولان کی پہاڑیوں پر فوجی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ دعویٰ کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ تہران اسرائیل میں 50 فیصد اہداف کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہا۔ اسرائیلی فضائی اڈے کو خیبر میزائلوں سے ٹارگٹ کیا گیا۔
ایرانی حملے کے بعد مسلم ممالک کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا ہے اس میں سعودی عرب کی جانب سے خطے میں کشیدگی بڑھنے اور اس کے اثرات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ تمام فریقین انتہائی تحمل کا مظاہرہ کریں، سلامتی کونسل عالمی امن و سلامتی برقرار رکھنے میں ذمہ داری پوری کرے۔ خطے میں عالمی امن اور سلامتی کا معاملہ انتہائی حساس ہے۔ متحدہ عرب امارات نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اور عدم استحکام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کو مذاکرات اور سفارتی روابط سے حل کیا جائے۔ اماراتی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک بار پھر مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کیا جا رہا ہے۔ بیان میں فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تنازعات کو سفارتی بنیادوں پر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔ اسی طرح قطر نے بھی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فریقین سے تناؤ کو ختم کرنے اور پرسکون ماحول کو فروغ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جن تین ممالک کے مذکورہ ردعمل میں معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی بات کی گئی ہے یہ تینوں ممالک جوابی کارروائی سے پہلے امریکا کے کہنے پر ایران کو سمجھانے کی کوشش کرچکے تھے کہ وہ اسرائیل پر جوابی حملہ نہ کرے۔ توقع کے عین مطابق، ان میں سے کسی بھی ملک نے امریکا نے یہ کہنے کی جرأت نہیں کی کہ وہ اسرائیل کی دہشت گردی کو لگام ڈالے اور اسے سمجھائے کہ وہ خطے میں ہر کسی کے ساتھ نہ الجھتا پھرے۔ ایران کی طرف سے کی گئی جوابی کارروائی اسرائیل کے اس حملے کے تقریباً دو ہفتے بعد کی گئی جس میں ایرانی سفارتی عمارت کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ بین الاقوامی کے مطابق، کسی بھی ملک کی سفارتی عمارت پر حملہ کرنے کا مطلب اعلانِ جنگ ہوتا ہے۔ جب اسرائیل کی طرف سے حملہ کر کے اعلانِ جنگ کر ہی دیا گیا تھا تو پھر جواب میں ایران کو کیا کرنا چاہیے تھا؟
دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل پر ایرانی حملوں کے بعد امریکی صدر کی سرکاری رہائش یعنی وائٹ ہاؤس کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے دفاع کے لیے امریکی فوج نے پچھلے ہفتے ہوائی جہاز اور بیلسٹک میزائل ڈیفنس ڈسٹرائرز خطے میں منتقل کیے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ان تعیناتیوں کی بدولت ہم نے اسرائیل کی ایران کی جانب سے آنے والے تقریباً تمام ڈرونز اور میزائلوں کو گرانے میں مدد کی۔ علاوہ ازیں، امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیلی وزیراعظم بنیا مین نیتن یاہو سے فون پر رابطہ کر کے اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکی عزم کی تصدیق کی۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم جی سیون کا اجلاس بلائیں گے جس میں ایرانی حملے پر متحدہ سفارتی ردعمل کو طے کیا جائے گا۔ ہم اسرائیل کے ساتھ قریبی رابطے میں رہیں گے۔ادھر، برطانیہ نے بھی کئی جنگی اور ری فیولنگ ٹینکر طیارے خطے میں بھیج دیے۔ برطانوی حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ طیاروں کو فضائی حملے روکنے کے لیے بھیجا گیا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستان نے خطے میں بڑھتی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ 2 اپریل کو پاکستان نے شام میں ایرانی قونصل خانہ پر حملے کو ایک بڑی کشیدگی کا پیش خیمہ قرار دیا تھا۔ ترجمان نے کہا کہ اب صورتحال کو مستحکم کرنے اور امن کی بحالی کی اشد ضرورت ہے، ہم تمام فریقین سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ انتہائی تحمل سے کام لیں اور کشیدگی کو کم کرنے کی طرف بڑھیں۔ اسی طرح، اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی سابق مندوب ملیحہ لودھی نے کہا ہے کہ پہلی بار ایران اور اسرائیل کی براہِ راست محاذ آرائی ہوئی ہے، جنگ خطے میں پھیلی تو پاکستان پر بھی اثرات ہوں گے، جنگ بڑھنا اسرائیل کے سوا کسی کے مفاد میں نہیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایرانی سفارت خانے پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی جس کے بعد ایران پر اندرون اور بیرونِ ملک سے بہت دبا ئوتھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ پھیلنے سے ناجائز صہیونی ریاست کے سوا کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ خود امریکا بھی اس جنگ سے نقصان ہی اٹھائے گا لیکن اس کے باوجود امریکا اور برطانیہ جس طرح غیر مشروط انداز میں اسرائیل کے ہر اقدام کو تحفظ فراہم کرتے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ ان ممالک کی انتظامی معاملات پر صہیونیوں کے قبضے میں ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی جارحیت سوا سات مہینے سے جاری ہے اور اس کے جاری رہنے کے پیچھے بھی امریکا اور برطانیہ کا ہاتھ ہے۔ ایرانی سفارتی عمارت پر اسرائیل نے جو حملہ کیا وہ بھی امریکا اور برطانیہ کی آشیرباد کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا اور مستقبل میں بھی ایسی ناخوشگوار صورتحال پیدا ہونے کا امکان تب تک موجود رہے گا جب تک مسئلہ فلسطین کو مستقل بنیادوں پر حل کر کے اسرائیل کو لگام نہیں ڈالی جاتی۔ اس مرحلے پر اصل امتحان مسلم ممالک کے حکمرانوں کی غیرت کا ہے جو غزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی اور بربریت سے متعلق صرف کھوکھلے بیانات جاری کررہے ہیں۔ اگر ہزاروں میل دور بیٹھے امریکا اور برطانیہ فوری طور پر اسرائیل کی مدد کو پہنچ سکتے ہیں تو پھر ایک ہی خطے میں موجود مسلم ممالک کو فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی عملی حمایت سے کون سی شے روک رہی ہے؟ مسلم ممالک کے حکمرانوں کو چاہیے کہ امریکی غلامی کا طوق گلے سے اتار کر مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ٹھوس اقدامات کریں ورنہ آج نہیں تو کل دہشت گرد اسرائیل انھیں بھی نشانہ بنانے سے باز نہیں آئے گا اور امریکا اور برطانیہ تب بھی اس کی پشت پر کھڑے دکھائی دیں گے۔