سیلابی ریلے سے ڈیرہ اللہ یار اور روجھان جمالی کے علاقے مکمل طور پر پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان علاقوں میں اب بھی پانچ سے چھ فٹ تک پانی کھڑا ہے، سیلاب سے متعدد ہلاکتوں کے علاوہ سینکڑوں گھر منہدم ہو گئے ہیں اور ہزاروں لوگ بےسروسامانی کی حالت میں کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ آبادی والے شہر ڈیرہ اللہ یار میں آدھی سے زیادہ آبادی سیلاب آنے سے پہلے ہی نقل مکانی کر گئی تھی جبکہ بعض لوگ اب بھی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں نکالنے کیلئے پاک فوج کے ہیلی کاپٹر اور کشتیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کمشنر نصیرآباد ڈویژن شیر خان بازئی کا کہنا تھا کہ اوستہ محمد اور گنداخا شہر کے لوگو ں کو وارننگ جاری کردی گئی ہے کہ پانی ان کی طر ف بڑھ رہا ہے اس لیے وہ اپنا علاقہ خالی کر کے چلے جائیں۔ کمشنر نے بتایا کہ جو لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ چکے ہیں وہ کھلے آسمان تلے پڑے ہوئے ہیں کیونکہ مقامی انتظامیہ کے پاس ان کی رہائش کے لیے خیمے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مختلف علاقوں سے نقل مکانی کر کے آنے والے تین لاکھ کے قریب لوگوں کے رہنے کے لیے صاف پانی، خیموں ،خوراک اور ادویات کی فوری ضرورت ہے۔
سیلاب سے ریلوے ٹریک اور سڑکیں زیرآب آنے کے باعث سندھ اوربلوچستان کا زمینی رابطہ بھی منقطع ہو گیا ہے جبکہ سینکڑوں جانور مرنے سے علاقے میں تعفن پھیلا ہوا ہے جس سے وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے۔ ادھرصوبائی حکومت نے متاثرہ اضلاع میں موسم گرما کی تعطیلات میں چھبیس اگست تک توسیع کردی ہے۔
سیلاب سے ریلوے ٹریک اور سڑکیں زیرآب آنے کے باعث سندھ اوربلوچستان کا زمینی رابطہ بھی منقطع ہو گیا ہے جبکہ سینکڑوں جانور مرنے سے علاقے میں تعفن پھیلا ہوا ہے جس سے وبائی امراض پھوٹنے کا خدشہ ہے۔ ادھرصوبائی حکومت نے متاثرہ اضلاع میں موسم گرما کی تعطیلات میں چھبیس اگست تک توسیع کردی ہے۔