انگریز خود کو موجودہ عہد کی مہذب قوموں کا سردار کہتے ہیں۔ برطانوی معاشرے کے بارے میں زوروں سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی اس قدر مثالی ہے کہ دوسری قوموں کے نصیب میں نہیں۔ دہشت گردی کے تصور سے ہی اپنے اعلانات کے مطابق انہیں گھن آتی ہے۔ اس ملک اور سماج میں اچانک جو یہ ہنگاموں، بلووں اور قتل و غارت گری کی آگ بھڑک اٹھی ہے اس کے اسباب کی سمجھ برطانوی حکومت کو آرہی ہے نہ وہاں کے دانشور ابھی تک اس کی خاص تشریح پیش کر سکے ہیں ماسوائے اس کے کہ کچھ مقامی طبقوں اور آبادکاروں کی معاشی پسماندگی اور اپنے حالات سے بڑھتی ہوئی مایوسی نے یہ دن دکھائے ہیں.... اگرچہ کچھ کھاتے پیتے افراد بھی ان میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس قدر کھوکھلی وضاحت تو کم ہی کسی نے پیش کی ہوگی۔ مسلمانوں میں سے جنہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے انہوں نے کبھی دکانیں نہیں لوٹیں، قیمتی اشیاءپر ہاتھ صاف نہیں کئے، دوسروں کی عبادت گاہوں پر متعین افراد کو گاڑیوں تلے کچل کر نہیں رکھ دیا۔ اگرچہ سول افراد اور شہری املاک پر حملے کئے ہیں لیکن ان کا اصل ہدف ہمیشہ فلسطین میں اسرائیلی، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اور عراق و افغانستان میں قابض فوجوں اور حکومتوں کی تنصیبات، املاک اور ان سے متعلقہ افراد رہے ہیں۔ ان کی جدوجہد کا ایک اعلانیہ مقصد اور اقوام متحدہ کی جانب سے طے کردہ نصب العین یعنی آزادی رہا ہے۔ اس کے برعکس برطانیہ کے دہشت گردوں نے جو رنگ جمایا ہے وہ پرلے درجے کی قانون شکنی، لوٹ مار اور وحشت و بربریت کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن وقت کی طاقتور حکومتیں اور منہ زور میڈیا بہرصورت مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم کئے ہوئے ہیں۔ یہ کون سی انسانیت اور کہاں کی تہذیب و شائستگی ہے اس کا جواب دنیا بھر کے علاوہ پاکستان کے ثناءخواں تہذیب مغرب یا آسان الفاظ میں امریکہ و یورپ نواز دانشوروں اور ان کی این جی اوز کے ذمے ہے۔ (ختم شد)
برطانیہ کے دہشت گرد
Aug 16, 2011
انگریز خود کو موجودہ عہد کی مہذب قوموں کا سردار کہتے ہیں۔ برطانوی معاشرے کے بارے میں زوروں سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی اس قدر مثالی ہے کہ دوسری قوموں کے نصیب میں نہیں۔ دہشت گردی کے تصور سے ہی اپنے اعلانات کے مطابق انہیں گھن آتی ہے۔ اس ملک اور سماج میں اچانک جو یہ ہنگاموں، بلووں اور قتل و غارت گری کی آگ بھڑک اٹھی ہے اس کے اسباب کی سمجھ برطانوی حکومت کو آرہی ہے نہ وہاں کے دانشور ابھی تک اس کی خاص تشریح پیش کر سکے ہیں ماسوائے اس کے کہ کچھ مقامی طبقوں اور آبادکاروں کی معاشی پسماندگی اور اپنے حالات سے بڑھتی ہوئی مایوسی نے یہ دن دکھائے ہیں.... اگرچہ کچھ کھاتے پیتے افراد بھی ان میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس قدر کھوکھلی وضاحت تو کم ہی کسی نے پیش کی ہوگی۔ مسلمانوں میں سے جنہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے انہوں نے کبھی دکانیں نہیں لوٹیں، قیمتی اشیاءپر ہاتھ صاف نہیں کئے، دوسروں کی عبادت گاہوں پر متعین افراد کو گاڑیوں تلے کچل کر نہیں رکھ دیا۔ اگرچہ سول افراد اور شہری املاک پر حملے کئے ہیں لیکن ان کا اصل ہدف ہمیشہ فلسطین میں اسرائیلی، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اور عراق و افغانستان میں قابض فوجوں اور حکومتوں کی تنصیبات، املاک اور ان سے متعلقہ افراد رہے ہیں۔ ان کی جدوجہد کا ایک اعلانیہ مقصد اور اقوام متحدہ کی جانب سے طے کردہ نصب العین یعنی آزادی رہا ہے۔ اس کے برعکس برطانیہ کے دہشت گردوں نے جو رنگ جمایا ہے وہ پرلے درجے کی قانون شکنی، لوٹ مار اور وحشت و بربریت کے علاوہ کچھ نہیں۔ لیکن وقت کی طاقتور حکومتیں اور منہ زور میڈیا بہرصورت مسلمانوں کے خلاف محاذ قائم کئے ہوئے ہیں۔ یہ کون سی انسانیت اور کہاں کی تہذیب و شائستگی ہے اس کا جواب دنیا بھر کے علاوہ پاکستان کے ثناءخواں تہذیب مغرب یا آسان الفاظ میں امریکہ و یورپ نواز دانشوروں اور ان کی این جی اوز کے ذمے ہے۔ (ختم شد)