بجلی پانی کے وزیر شذیر چودھری احمد مختار نے بہت وج گج کے کہا کہ میں جس کے پیچھے پڑ جاتا ہوں تو پھر اسے بھگا کے چھوڑتا ہوں۔ میں چودھری برادران کے پیچھے لگ گیا ہوں اب انہیں بھگا کے رہوں گا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ یہ کھڑکار لگائے رکھتی ہے پھر کھڑکار اتنا بڑھ جاتا ہے کہ بات ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔ چودھری صاحبان نے اس لڑائی کو بے فائدہ سمجھا اور چودھری احمد مختار کو اس قابل بھی نہ جانا کہ اس کا جواب دیں۔ انہوں نے چودھری احمد مختار کو لاجواب کیا بلکہ اس کی ”پھوک“ نکال دی۔ صدر زرداری سے رابطہ کیا کہ یہ آپ کے رکھے ہوئے لوگ کیا کرتے ہیں۔ اتحاد بھی اور فساد بھی۔ صدر زرداری نے بڑی عقلمندی کی۔ وہ سیاست جانتا ہے۔ ایم کیو ایم تو عادی ہے۔ وہ روٹھنے اور مان جانے کی عادی ہے۔ ذوالفقار مرزا نے الطاف حسین کو خوب رگیدا بلکہ رگڑا۔ ساتھ میں اپنے رحمان ملک کو بھی رگڑا لگا دیا۔ وہ بھی شاید اتحادی ہے۔ اسے بھی ٹھیک رکھنے کیلئے کئی طریقے اختیار کرنا پڑتے ہیں۔ مرزا صاحب نے دونوں کو غدار کہا۔ اب مرزا صاحب خاموش ہیں۔ رحمان ملک اور الطاف حسین دونوں صدر زرداری کے ساتھ ہیں بلکہ ساتھ ساتھ ہیں اور ”اپنا کام“ کر رہے ہیں۔ دونوں برطانیہ کے شہری ہیں۔
صدر زرداری نے فوراً چودھری احمد مختار کو ڈانٹ دیا۔ چودھری احمد مختار نے اپنی بات واپس لے لی۔ پیچھے پڑنے کی بجائے آگے لگنے کیلئے تیار ہو گئے۔ ایسا یو ٹرن سیاستدانوں کا شیوہ ہے۔ لوٹا سازی کئی قسموں کی ہوتی ہے۔ احمد مختار نے تو فوراً اپنی بات کاٹ دی۔ اس نے دریا لوٹے میں بند کر دیا۔ سمندر کوزے بند کرنے والی بات پرانی ہے۔ اب نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے۔ لوٹے سیاستدان کم نہیں۔ وہ اس عمل سے دریا لوٹے میں بند کرتے رہتے ہیں۔
اس نے کہا کہ میں چودھری احمد مختار چودھری برادران کے ساتھ مل کر آئندہ انتخاب لڑوں گا۔ میں ان کے پیچھے نہیں پڑوں گا۔ ان کے آگے آگے ناچتا ہوا اور ان کے نعرے لگاتا ہوا گجرات کی ہر گلی سے گزروں گا اور پھر حد سے گزر جا¶ں گا۔ صدر زرداری کو ہر قیمت پر خوش کرنے میں میری سیاسی زندگی ہے اور زندگی بھی اسی میں ہے۔یہی میری سروس ہے چودھری شجاعت تو میرے بڑے بھائی احمد سعید کے کلاس فیلو ایف سی کالج میں تھے۔ وہ میرے بڑے بھائی ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی نے بھی ایف سی کالج سے تعلیم مکمل کی ہے۔ ان کے سارے کلاس فیلو بھی میرے بھائی ہیں۔ ہم دونوں چودھری ہیں۔ مگر ایک بات چودھری احمد مختار جانتے ہیں کہ گجرات کے چودھری صرف چودھری برادران ہیں۔ چودھری شجاعت اور چودھری پرویز الٰہی۔
پاکستان کی سیاست کی سمجھ نہیں آتی۔ جب احمد مختار کو معلوم ہے کہ وہ خود کچھ بھی نہیں کرتے سب کچھ پارٹی لیڈر ہے اور وہ صدر بھی ہے۔ صدر زرداری نے اسے وزیر شذیر بنایا۔ وزیر شذیر پارٹی لیڈر کا ملازم ہوتا ہے۔ چودھری برادران اتحادی پارٹی کے لیڈر ہیں۔ ان کے ساتھ اپنا مقابلہ کرنا چودھری احمد مختار کی بے وقوفی ہے۔ اگر اتحادی جماعتوں کے ساتھ انتخابی الحاق پیپلز پارٹی کا ہوتا ہے تو گجرات میں چودھری احمد مختار کی سیاست چودھری برادران کے رحم و کرم پر ہے۔ چودھری پرویز الٰہی وزیر شذیر نہیں ہیں بلکہ ڈپٹی وزیراعظم ہیں۔ اس طرح وہ احمد مختار کے سیکنڈ باس ہیں۔ وہ صدر زرداری کے بھی اس کی طرح انڈر نہیں ہیں۔ ان کی صدر زرداری کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ ہے۔ احمد مختار جیسے آدمی نے مس انڈر سٹینڈنگ کا مطلب اس طرح بیان کیا تھا۔ مس انڈر سٹینڈنگ۔ مِس نیچے کھڑی ہے۔ اب وہ مِس نیچے سے چلی گئی ہے۔
چودھری احمد مختار کے وزیراعظم بننے کے ”امکانات“ تھے۔ خبریں بھی آ رہی تھیں۔ مگر اس واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ تو اپنی کہی ہوئی بات واپس لینے میں اپنے وقار کو نہیں سنبھال سکتے۔ پرویز اشرف بھی ایسے ہی ہیں۔ بہرحال وہ احمد مختار سے تو بہتر ہیں۔ احمد مختار کو یہ بھی رنج ہے کہ مجھے چودھریوں نے وزیراعظم نہیں بننے دیا۔ اگر وہ یہی ہے جو نظر آ رہا ہے تو پھر چودھریوں نے ٹھیک ہی کیا ہے۔ پہلے ایسا ہی شکوہ ہمایوں اختر خان کو بھی تھا۔ اس نے اسی لئے غصے میں آ کر ہم خیال گروپ بنا لیا اور کشمالہ طارق کو اپنا لیڈر بنا لیا۔ بہرحال کشمالہ طارق اس سے بڑی سیاستدان ہے۔ کمزور کا غصہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ احمد مختار نے اپنے آپ کو نقصان سے ابھی بچا لیا ہے۔ اسے چاہئے کہ آئندہ خیال کرے۔ اس کا نقصان زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔
لوگ بجلی پانی کا وزیر بننے سے پہلے بھی احمد مختار سے مایوس تھے۔ وزیر دفاع کے طور پر بھی انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ اب بھی کچھ نہیں کریں گے۔ جو کرنا تھا وہ پرویز اشرف کر کے چلے گئے۔ اس ”کارکردگی“ پر وہ وزیراعظم بنا دیئے گئے۔ اب احمد مختار بجلی و پانی کے وزیر بنے ہیں کہ اس کے بعد تو وزیراعظم ہی بننا رہ جاتا ہے۔ وہ تو راجہ رینٹل بنا ہے۔ ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ پرویز اشرف بن سکیں۔ اس سے پہلے ابھی نوید قمر کا نمبر ہے۔ وہ تو جانتا ہے کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ وزیراعظم بننے کیلئے صدر زرداری کے معیار پر پورا اترنا اتنا آسان نہیں۔ احمد مختار کی بے اختیاریاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ وہ وزیر دفاع تھے تو پہلے محکمہ دفاع کا سیکرٹری کوئی جرنیل تھا۔ پھر نرگس سیٹھی آ گئیں۔ وہ کسی جرنیل سے کم نہیں۔ بیوروکریٹ سمجھتے ہیں کہ افسر کسی جرنیل سے کم نہیں ہوتا۔ وہ سیاستدانوں کو تو اپنا ملازم سمجھتے ہیں۔ نرگس سیٹھی وزیراعظم گیلانی کی سیکرٹری تھیں۔ وہ گئے ہیں تو سیٹھی صاحبہ بھی فارغ ہیں۔ سیاست تو صدر زرداری جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ ذوالفقار مرزا سے کیا کام لینا ہے۔ فیصل رضا عابدی سے کیا کام لینا ہے۔ انہوں نے احمد مختار سے ابھی کوئی کام نہیں لینا۔ احمد مختار کو سیاست صدر زرداری سے سیکھنا چاہئے ورنہ چودھری شجاعت سے سیاست سیکھیں۔ صدر زرداری چودھری شجاعت کی بہت عزت کرتے ہیں۔