اثر چوہان
ایران کے نامور شاعر حافظ شیرازی(1074ئ۔ 1149ئ) نے جِن کے کلام سے آج بھی بعض لوگ فال نکالتے ہیں، اپنے دور کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا تھا:۔
1۔ ابلہاں را، ہمہ شربت، زگُلاب و قندست
قوّتِ دانا، ہمہ از خونِ جِگر، می بِینم
ترجمہ:۔ بے وقوفوں کے لئے تمام تر گُلاب و قند کا شربت ہے۔ عقلمند کی ساری روزی خونِ جِگر سے دیکھتا ہوں۔
2۔ اسپِ تازی، شُدہ مجرُوح، بزیرِ پالاں
طوقِ زرّیں، ہمہ در گردنِ خر، می بِینم
ترجمہ۔ عربی گھوڑا، پالان کے نتیجے زخمی ہو گیا۔ سونے کا طوق (گلے کا زیور) گدھے کی گردن میں دیکھتا ہوں۔
حافظ شیرازی، آج کے دور میں ہوتے تو” شاعرِ دوراں“ کہلاتے۔ 9ساڑھے 9سو سالوںمیں کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ شیخ سعدی شیرازی (1184ئ۔1295ئ) نے کہا تھا۔” بادشاہوں کا مزاج عجیب ہوتا ہے۔ اُن کی خدمت میں قصِیدہ پیش کِیا جائے تو وہ شاعر کو پھانسی دینے کا حُکم صادر فرماتے ہیں اور اگر انہیں کوئی گالیاں دے تو اُسے خلعت عطا کردیتے ہیں“۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر جناب آصف زرداری، پُرانے دور کے بادشاہوں سے زیادہ سیانے ہیں۔ اُن کا مزاج پُختہ ہے۔ وہ سزا اور جزا کا فلسفہ بخوبی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دربار میں اپنے مطلب کے کئی ”نابغہءروزگار“ رکھے ہوئے ہیں۔ مُغل بادشاہ اکبر کے 9رتن اُن کے مقابلے میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتے۔
اکبرِ نے اپنے ایک درباری مسخرے ” وِیر ور“ المعروف بِیربل کو صوبہ سرحد کے پٹھانوں کی سر کوبی کے لئے بھیجا تھا۔ بیربل کی ماتحتی میں کئی جرنیل بھی تھے لیکن بِیربل مارا گیا۔ اکبر ِ کئی سال تک اُس کی یاد میں سوگوار رہا۔ صدر زرداری نے اپنے کسی بھی درباری کو مروانے کے لئے ایسا تجربہ نہیں کیا، البتہ انہوں نے بادشاہوں سے مختلف رویّہ اختیار کرکے اپنے مخالفوں کے خلاف، اپنے ادنیٰ و اعلیٰ کارکنوں کو گالم گلوچ کے ہتھیاروں سے لیس کرکے میدان میں اُتار دیا ہے۔ دروغ برگر دِن راوی کہ فیصل رضا عابدی، گورنر لطیف کھوسہ اور فواد چودھری میں سے جِس نے بھی سب سے بڑھ کر کمال دکھایا اُسی کے گلے میں ”وفاقی وزارتِ گالم گلوچ“ کا ”طوقِ زریں“ ڈال دیا جائے گا۔
ڈاکٹر بابر اعوان ناکام ہوئے تو دربار میں اُن کا داخلہ بند کر دیا گیا ۔ بیرسٹر اعتزاز احسن وکالت اور شاعری کے سِوا کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ انہیں سینیٹر منتخب کروانا بھی پارٹی کے لئے بے سود ثابت ہوا۔ بحریہ ٹاﺅن کے سابق سربراہ ملک ریاض کی کوئی سیاسی حیثیت نہیں تھی لیکن وہ، چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف بدبو دار بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے اور اس کے بعد کئی اور قطرے۔
”کور کمیٹی“ میں یہ طے ہوا کہ کیوں نہ مقدمہ سپریم کورٹ سے باہر لڑا جائے۔ جب کہ کورٹ سے باہر لڑنے والے کے لئے وکیل ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی اُسے لڑنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ بس بندہ گالم گلوچ کے فن میں ماہر ہو۔ گورنری ہو یا سینٹ کا ٹکٹ یا مشاورت کی اسامی، فیصلہ تو ظِلّ الہی نے ہی کرنا ہوتا ہے ۔
جوانی میں کہی گئی میری ایک غزل کا شعر ہے:۔
”ہمارے، حُسنِ نظر کی، کرشمہ سازی ہے
کہ جِس کو، پیار سے دیکھا ، وہ بے مثال ہوا“
صدر زرداری نے بھی اپنے حُسنِ نظر کی کرشمہ سازی سے کئی لوگوں کو پیار سے دیکھا اور اُنہیں بے مِثال بنا دیا۔ گلی محلّوں میں منگ پتّا کھیلنے والوں، سڑکوں پر مُنہ سے آگ نکال کر تماشا دکھانے والوں، فُٹ پاتھ پر سانڈے کا تیل بیچنے والوں اور سینماﺅں میں ٹکٹ بلیک کرنے والوں کو اپنا درباری بنا کرصدر صاحب نے اُنہیں ،جو شہرتِ عام اور بقائے دوام عطا فرمائی اُس سے اُن کا فدائین کا حلقہ بہت وسیع ہو گیا ہے۔
غالب نے اپنے محبوب کو مخاطب کرکے کہا تھا:۔
”کِتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقِیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا©“
لیکن محبوب کے بجائے اگر کوئی بدصورت اور ”کوہجا شخص“ مُنہ بگاڑ بگاڑ کر شُرفا ءکو گالیاں دے تو، لوگ بے مزا تو ہوں گے ہی اور یہی کہیں گے کہ۔۔
”زباں بِگڑی تو بِگڑی تھی،خبر لِیجئیے دہن بِگڑا“
سینیٹر فیصل رضا عابدی کو میں نے کئی نیوز چینلوں پر چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف مُنہ سے آگ اُگلتے قے کرنے کے انداز میں، اور گالیوں کی بوچھاڑ کرتے دیکھا۔ جیسے۔
” بک رہا ہُوں، جنوں مےں کیا کیا کچھ“
کی کیفیت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی کے ایک وکیل اسلم خاکی نے سپریم کورٹ میں درخواست دی کہ ” فیصل رضا عابدی کا ذہنی توازن ٹھیک نہیں، ان کا دماغی معائنہ کرایا جائے“ ابھی اس کیس کی سماعت نہیں ہوئی۔ یوں بھی قانون کے مطابق تو، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ہی کسی شخص کو پاگل ڈیکلیئر کر سکتا ہے۔ عابدی صاحب پاگل قرار دئے گئے تو سینیٹر شپ سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔ پہلے دِن خبر آئی تھی کہ ”چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف ” شعلہ فشانی“ کرنے پر عابدی صاحب کو پیپلز پارٹی کی کور کمیٹی سے نکال دیا گیا ہے اور اُن کا ایوانِ صدر میں داخلہ بھی بند کر دیا گیا ہے“ لیکن اگلے ہی روز ایوانِ صدر کے ترجمان فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ”خبر درست نہیں۔ عابدی صاحب بدستور کور کمیٹی کے رُکن ہیں اور اُن کے ایوانِ صدر میں داخلے پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی“ ظاہر ہے کہ انعام کے قابل لوگوں کو سزا تو نہیں دی جا سکتی !
افسوس کہ ذوالفقار علی بھٹو کے جیالوں نے4اپریل 1979ءکو اپنے لیڈر کی پھانسی کی خبر سُن کر” خود سوزی“ کا اصول اپنایا یعنی عدم تشدد کا راستہ۔ جب مرتضیٰ بھٹو نے ” الذوالفقار“ تنظیم بنائی تھی، فیصل رضاعابدی کی عُمر اُس وقت آٹھ ماہ بائیس دِن تھی۔اگر وہ اُن دنوں جوان ہوتے تو کم ازکم ”الذوالفقار“ میں خود کُش حملہ آوروں کے ”کور کمانڈر“ضرور ہوتے۔
بھٹو صاحب کو پیپلز پارٹی کی ” کور کمیٹی“ بنانے کی نہیں سوجھی، یہ آئیڈیا زرداری صاحب کا ہے۔ وہ اپنی پارٹی کو شہیدوں کی پارٹی کہتے ہیں، لیکن شاید اب وہ پارٹی میں ” غازیوں “ کی فورس بھی تیار کر رہے ہیں۔ میں تو اِس بات سے خوفزدہ ہوں کہ فیصل رضا عابدی اپنے قائد پر جان نچھاور کرنے اور ”غازی فیصل رضا عابدی شہید“ کہلانے کے لئے کچھ بھی کر سکتے ہیں!