میں نے پاکستان بنتے دیکھا

Aug 16, 2013

 ڈاکٹر جازب بخاری،ایم اے تعلیمات۔ لاہور
 یہ ایک حقیقت ہے کہ میں نے بقائمی ہوش و حواس اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا۔ میری عمر اس وقت 12سال تھی میں اپنی بیوہ والدہ اور بہن بھائیوںکے ہمراہ ضلع گورداسپور سے سات میل کے فاصلے پر موضع جوڑہ چھتران میں رہائش پذیر تھا۔ گاﺅں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی گاﺅں کا ماحول خوشگوار تھا اور کبھی کوئی بدمزگی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ اُن دنوں آزادی کی تحریک زوروں پر تھیں ۔ ہندو راہنماﺅں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود تحریک پاکستان حضرت قائداعظم ؒ کی مدبرانہ راہنمائی میں منزل مقصود کے قریب پہنچ چکی تھی۔ ایک دن ضلع گورداسپور کو پاکستان میں شامل کرنے کا جو اعلان ہوا تو گاﺅں کے مسلمانوں میں ہلچل مچ گئی۔ مرحوم چچا سید عبدالمجید ان کے پسر کلاں سید شبیر حسین اور میرے بڑے بھائی سید بشیر حسین نے دوسرے لوگوں کے ہمراہ ہندوﺅں کی دکان پر پاکستان کا جھنڈا جا لہرایا جس سے ہندو دکاندار دبک کے رہ گئے مگر یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی جبکہ ریڈ کلف اور ہندو راہنماﺅں کی عظیم سازش کے تحت اگلے ہی دن گورداسپور کو بھارت میں شامل کرنیکا اعلان کردیا گیا۔ یہ اعلان ہم سب پر بجلی بن کر گرا اور پھر علاقے میں ہندوﺅں سکھوں نے نہتے مسلمانوں پر خونیں حملے شروع کردئیے۔
 ہم ایک رات کو مکان زمینیں اور دوسرا مال و متاع وہیں چھوڑ کر بے سرو ساماں پیدل گاﺅں ہر دو چھنی پہنچے۔ وہاں اپنے کچھ عزیزوں کو ساتھ لیکرکوٹ نیناں کے قریب راوی کے ملاحوں کے پتن پر پہنچے راستہ بھر ہندوﺅں سکھوں کی بربریت کے مناظر ناقابل برداشت تھے۔ پتن پر کوئی ایک لاکھ کے قریب مسلمان مہاجرین کا اجتماع تھا۔ دریا طغیانی پر تھا ملاح صرف معقول معاوضہ لیکر دو تین کشتیوں کے ذریعے لوگوں کو پار لے جارہے تھے ہم نے بھی بھاری معاوضہ دیکر دریا عبور کیا۔ بتانا ضروری ہے کہ دریار کے بھارتی کنارے پر دن کے وقت جمع شدہ ایک لاکھ مہاجرین پر پچاس سکھ گھڑ سواروں نے مجمع پر گولیاں برسا کر قیامت برپا کردی۔ سینکڑوں وہیں ڈھیر ہوگئے کچھ نے تیر کر دریا عبور کیا ،سینکڑوں کی تعداد میں دریا میں ڈوب گئے بہرحال ہم مرحوم چچا اور دوسر ے عزیزوں کی لاشیں وہیں چھوڑ کر دریا عبور کرچکے تھے وہ خون آشام سفر اور مناظر آج تک ذہنوں سے محو نہیں ہوسکے۔

مزیدخبریں