سوموار ۔19اگست کو ۔وزیرِاعظم میاں نواز شریف ،الیکٹرانک میڈیا پر قوم سے خطاب کر رہے ہیں ۔وزیرِاعظم اپنے خطاب میں کیا کہیں گے ؟۔ اِس بارے میں، قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ، عام انتخابات سے قبل ،مسلم لیگ ن کا منشور ،نشر کرتے ہُوئے ،میاں صاحب نے ،اقتدار میں آنے کی صورت میں۔’’ معاشی دھماکا ‘‘۔ کرنے کا جووعدہ کِیا تھا ، وہ پورا کرنے جا رہے ہیں ۔ انتخابات سے قبل ، مسلم لیگ ن کا انتخابی منشور نشر کرتے وقت ، میاں صاحب نے ۔’’ معاشی دھماکا‘‘۔ کرنے کا وعدہ کر کے عوام ،کو خوش کر دیا تھا ۔انہیں میاں صاحب پر اعتماد تھا کہ، جب وہ ،وزیرِاعظم کی حیثیت سے ،ایٹمی دھماکا ۔کر سکتے ہیں تو ۔’’ معاشی دھماکا ‘‘۔ کیوں نہیں کریں گے؟۔حالانکہ وزیرِاعظم نواز شریف نے، ایٹمی دھماکا ۔محترم مجید نظامی کے بزرگانہ مشورے کے بعد کِیا تھا۔ جب انہوں نے کہاکہ۔’’ وزیرِاعظم صاحب !۔ اگر آپ نے، ایٹمی دھماکا نہ کِیا تو، قوم آپ کا دھماکا کر دے گی!‘‘۔ میاں صاحب نے۔28مئی 1998ء کو ، امریکی دبائو کے باوجود ، ایٹمی دھماکا کر کے ،تاریخ میں نام پیدا کر لِیا ،لیکن پھرانہیں۔’’ شہنشاہوں کے شہنشاہ ‘‘۔ نے ، 12اکتوبر 1999ء کو اقتدار سے محروم کرا دیا۔
ذوالفقار علی بھٹو۔ نے، عوام کے حق میں ۔’’ معاشی دھماکا‘‘۔ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر وہ اپنا وعدہ پورا کرتے تو ، عوام۔ جنرل ضیاء اُلحق کے ہاتھوں ۔’’قائدِ عوام ‘‘۔ کا دھماکا نہ ہونے دیتے۔اگرچہ محترمہ بے نظیر بھٹو کا دھماکا ، کسی اور وجہ سے ہُوا ،لیکن اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دونوں ادوار میں ، موصوفہ ۔’’ معاشی دھماکا ‘‘۔ کرنے میں ناکام رہیں۔مُشیرانِ کرام نے محترمہ کو بتا یا تھا کہ۔’’ معاشی دھماکا‘‘۔ کرنا ،’’ کلّے بندے دا کمّ وی نئیںہوندا!‘‘۔ صدرزرداری بھی یہی سمجھتے تھے کہ ۔ ’’ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘۔ ہی وہ ۔’’ معاشی دھماکا‘‘۔ ہے ،جِس کا وعدہ ۔’’ فخرِا یشیائ‘‘۔ اور ۔’’ دُخترِ مشرق‘‘۔ نے کِیا تھا ۔ عوام نے ۔’’معاشی دھماکا‘‘۔ کا وعدہ کرنے والے ، میاں نواز شریف کو پھر مینڈیٹ دے دیا۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب ، میاں شہباز شریف نے۔14اگست کو۔( وزیرِاعظم کے خطاب سے 5دِن پہلے ) ۔یومِ آزادی پرایک تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کہا ہے کہ ۔’’ خونِیں انقلاب ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے ،ہم نے اپنی اصلاح نہ کی اور ہوش کے ناخن نہ لئے تو پھر صفحہء ہستی سے مِٹ جائیں گے!‘‘۔ کیا خادمِ اعلیٰ پنجاب بھی برادرِ بزرگ پر ۔’’ معاشی دھماکا‘‘۔ کرنے پر زور ڈال رہے ہیں ، لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری قومی معیشت کا ۔’’ قادرِ مطلق ‘‘۔ تو آئی ۔ایم۔ایف ہے۔کیا وہ، ہمارے وزیرِاعظم کو ۔’’ معاشی دھماکا‘‘۔ کرنے دے گا؟۔کیا یہ ۔’’ معاشی دھماکا‘‘۔ بَین بَین ہو گا کہ، آئی ۔ ایم ۔ایف اور پاکستانی عوام دونوں خوش ہو جائیں تو اور بات ہے ۔یعنی۔۔۔
’’باغباں بھی، خوش رہے،راضی رہے ،صیّاد بھی!‘‘
میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں، جناب سرتاج عزیز نے، وزیرِ خزانہ کی حیثیت سے 1991ء ۔1992ء کا قومی بجٹ پیش کرتے ہُوئے آٹے۔دال اور گھی کی قیمتوں میں کمی کر کے غریبوں کو خوش کر دِیا تھا ۔چنے کی دال کا نرخ 12روپے، فی کلو مقرر کر دِیا تھا ۔ آج کل چنے کی دال،90روپے فی کلو ہے اور اُسی تناسب سے دوسری دالوں کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں ۔اب تو غریب لوگوں کو تسلّی دینے کے لئے، پنجابی کا وہ اکھان بھی متروک ہو گیا ہے کہ۔’’کھائیے دال ۔جیہڑی نبھے نال‘‘۔ یعنی دال کھائیں ،جِس سے ساری زندگی نباہ ہو سکے۔ ’’ یہ مُنہ اور مسُور کی دال‘‘۔ کی ضرب اُلمثل تو پہلے بھی عام تھی اور آج بھی زباں زدِ عام ہے ۔مَیں اپنے ایک دوست کا نام لِکھ کر اُسے ۔’’مزید بدنام‘‘ ۔ نہیں کروں گا کہ،جِس نے یہ ۔’’ہرزہ سرائی‘‘۔ کی ہے کہ ۔’’ وزیرِاعظم نواز شریف، 19اگست کو اپنے خطاب میں ۔’’ معاشی دھماکا‘‘۔ نہیں کریں گے ،بلکہ اہلِ وطن کو بھارت سے جنگ کے خطرے اور دہشت گردوں کی مزید دہشت گردیوںکی تفصیلات سے آگاہ کریں گے اوریہ بھی اپیل کریں گے کہ وہ، چند سال تک صبر کریں اور مزیدقُربانیاں دینے کے لئے تیار رہیں‘‘۔مَیں نے اُس دوست سے بے تکلفی میں کہا۔تیرے مُنہ وِچّ ستّ چُلہیاں دی سواہ ۔اُس نے پُر زور قہقہہ لگایا اور کہا ۔’’ آج کا دَور تو گیس کے چولہوں کا ہے اور اُن میں تو ،گیس ہی نہیں آتی تو،سواہ کہاں ہو گی؟‘‘۔بات تو ٹھیک ہی ہے،لیکن مَیں پریشان ہوں کہ، مَیں اپنے حقیر مشورے سے ، اپنے محبوب وزیرِاعظم کو مشکلات سے کیسے نِکالوں؟ ۔ کیوںنہ وطنِ عزیز میں، نئے سرے سے ۔’’ صوفی اِزم ‘‘ کے فروغ کے لئے تحریک چلائی جائے؟ ۔ایک فارسی ضرب اُلمثل ہے کہ ۔’’ خُوردن برائے زیستن و ذِکر کردن است‘‘۔ یعنی کھانا زندہ رہنے اور عبادت کرنے کے لئے ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ۔’’ کم بولنے۔ کم کھانے اور کم سونے والا شخص، ولی ہوتا ہے‘‘۔ اگر فرض کرلیا جائے کہ، مہنگائی اِسی طرح بڑھتی رہے گی ۔ تو لوگ کم کھائیں گے ۔کم کھانے سے کمزور ہوں گے ۔کمزوری کی وجہ سے کم بولیں گے اوراُنہیں نیند بھی کم آئے گی ۔کیا اِس طرح انہیں، گھر بیٹھے بیٹھے ولایت نہیں مِل جائے گی ؟۔پنجابی زبان کے پہلے شاعر بابا فرید شکر گنجؒ کہتے ہیں ۔۔۔
’’ شکر،کھنڈ،نِوات، گُڑ، ماکھیوں،ماجھا دُدّھ سبھّے وستو مِٹھّیاں، ربّ نہ پُجّن ، تُدّھ‘‘
یعنی ۔( اِس میں شک نہیں کہ)۔ شکر ،کھانڈ ،مِصری ،گُڑ ،شہد اور بھینس کا دودھ ،سب چیزیں میٹھی ہیں ،لیکن اے ربّ! یہ تیرے نام کی مِٹھاس کو نہیں پہنچتیں!۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ،مفلوک اُلحال عوام کو ،بابا فریدؒ اور دوسرے اولیائے کرام ؒکے اِسی طرح کے، اقوال ِ زرّیں سے آگاہ کِیاجائے ؟۔صدر جنرل پرویز مشرف نے اپنے دَور میں،صوفی اِزم کے فروغ کے لئے، چودھری شجاعت حسین کی چیئرمین شپ میں۔’’آل پاکستان صوفی کونسل ‘‘ بنائی تھی اور کہا تھا کہ ۔’’چودھری شجاعت حسین پاکستان کے سب سے بڑے صوفی ہیں ‘‘۔ میرا مُفت مشورہ ہے کہ ، کیوں نہ چودھری صاحب کی مِنّت سماجت کر کے ،اُن سے ۔’’ صوفی کونسل ‘‘۔ کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ حاصل کرکے ۔برادرم عطاء اُلحق قاسمی کو صوفی کونسل کا چیئرمین ۔’’منتخب‘‘۔ کرا لیا جائے؟۔ دروغ برگردنِ توفیق بٹ کہ ۔’’قاسمی صاحب نے رُومانی شاعری ترک کر دی ہے اور اب وہ ۔’’ صُوفیانہ شاعری‘‘۔ میں غوطہ زن ہو گئے ہیں‘‘ ۔میرے اِس مشورے کا غلط مطلب ہرگز نہ لِیا جائے کہ،مَیں تو۔وزیرِاعظم نواز شریف اور جناب عطاء اُلحق قاسمی ۔دونوں کا خیر خوا ہ ہُوں! ۔
’’معاشی دھماکا۔یا ۔صوفی اِزم ؟‘‘
Aug 16, 2013