محمد ریاض اختر
iazakhtar.nw@gmail.com
قوم نے 68 واں یوم آزادی عجیب مخمصہ کی صورت میں منایا گو بازاروں‘ مارکیٹوں‘ گلیوں‘ گھروں اور محلوں میں جشن آزادی کی روائیتی رونق رہی‘ مگر دل و دماغ پر سیاسی صورتحال کی رداءتنی رہی‘ یہ پہلا موقع تھا کہ ہر شخص ”کل کیا ہو گا“ کا سوال لئے نظر آیا ....گھر اور گھر کے باہر کی کیفیت دو طرح کی تھی‘ گھر کے باہر یوم آزادی کا ماحول تھا اور جیسے ہی شہری گھروں کو لوٹتے تو ٹی وی آن کر کے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کا ماحول چھا جاتا خدا کر ے معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو اورقوم ہیجان کی کیفیت سے باہر نکل سکے۔حکومت نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کو اسلام آباد آنے کی اجازت دی‘ اب نئی صورتحال میں پاکستان عوامی تحریک زیروپوائنٹ اور تحریک انصاف آبپارہ میں جلسہ کرے گی۔ ”دونوں پارٹیوں“ کے کارکن چودہ اگست کی شام سے زیرو پوائنٹ اور آبپارہ میں جمع ہو نا شروع ہوگئے تھے۔.... چودہ اور پندرہ اگست کو دو عدالتی فیصلوں کی بازگشت بھی سیاسی زندگی میں سنی گئی۔ جمعة المبارک کی نماز سے قبل سپریم کورٹ نے عبوری حکومت میں واضع کر دیا کسی آئینی ادارے کو ختم کرنے کا کوئی بھی مطالبہ غیرقانونی اور غیرآئینی ہو گا جبکہ 9 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ وزیراعظم کا استعفیٰ‘ پارلیمنٹ کی تحلیل اور ٹیکنوکریٹس حکومت کا قیام جیسے مطالبات غیر آئینی ہیں ان فیصلوں سے حکومت کو قدرے ”ریلیف“ ملا تاہم دوسری طرف عمران خان کارکنوں سے مسلسل وعدے کرتے رہے کہ وہ اسلام آباد سے استعفیٰ لے کر ہی لوٹیں گے ادھر وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ عمران خان کے مطالبات کو حکومت سیاسی برادری کے سامنے رکھے گی۔ گویا بالآخر دونوں فریقین بشمول قادری صاحب ”سیاسی ڈائیلاگ“ سے کچھ لو اور کچھ دو کے فارمولے سے آگے بڑھیں گے۔ عوامی حلقوں کا تذبذب درست ہے کہ عمران خان پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچ گئے آخر وہ کون سے سیاسی افراد ہوں گے جو عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کو قابل قبول مطالبات تک محدود کر سکیں جس کے بعد حکومت ان مطالبات پر نتیجہ خیز قدم اٹھا سکے گی؟ تحریک انصاف کے کارکن پرامید ہیں کہ ان کے لیڈر اپنے مقصد میں کامیاب ہونگے اگر عمران خان کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے جائیں تو پھر صورتحال ایسی بند گلی میں چلی جائے گی جہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہو جائے گا۔ راستے صاف کرنے اور مارچ کو اسلام آباد میں آنے کی دعوت دینے پر یقیناً وفاقی و صوبائی حکومتیں مبارک باد کی مستحق ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار اور میاں شہباز شریف کے حالات کے متقاضی اقدام ستائش کے قابل ہیں۔ تاہم یہ سوال عوامی حلقوں میں موجود بدستور موجود ہے کہ اب کیا ہو گا؟
ممکنہ موجودہ جمہوری سیٹ اپ رخصت کرنے کا اگر فیصلہ کر بھی لیا جائے تو نئی حکومت کون بنائے گئے ؟کیونکہ پارلیمنٹ کی بڑی حکومت اپوزیشن جماعتیں جمہوریت کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ جمہوری اداروں کے متبادل سیاسی انتظام کا آئینی راستہ کیا ہو گا؟ یہ سوال سیاسی حلقوں میں زیرگردش ہے ہر کوئی عمران خان کے موجودہ جمہوری سیٹ اپ کو ختم کرنے کے مطالبے کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہے اعلیٰ سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے اگر جمہوری سیٹ اپ کو رخصت کیا جاتا ہے تو حکومت کون بنائے گا؟ وفاقی دارالحکومت کے بعض سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ضد پر مبنی سیاست نے فیصلہ کرنے کا اختیار کسی اور ”طاقت“ کے حوالے کر دیا ہے اگر سیاسی لوگ بامقصد مذاکرات میں ناکام رہے تو پھر جمہوریت اور جمہوری اقدار کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے بہت سے تجزیہ نگار دعویدار ہیں کہ اگر دھرنا دینے والوں کا ایک دن سے زیادہ قیام ہو گیا تو پھر معاملہ مزید پیچیدہ ہو سکتا ہے....چودہ اگست کی رات اور صبح تک آزادی اور انقلاب مارچ کا سفر پرامن رہا مگر جمہ کی دوپہر کے بعد گوجرانوالہ بائی پاس کے قریب تحریک انصاف اور مسلم لیگ ”ن“ کے مبینہ تصادم سے صورتحال مکدر ہو گئی۔ یہ تصادم بظاہر تو ٹل گیا مگر سیکورٹی خدشات کا سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔ ہر پاکستانی لانگ مارچ سے قبل سوچتا رہا کہ اتنے بڑے اجتماعی ریلے کی سیکورٹی مسئلہ رہے گی ذرا چنگاری بھی شعلہ بن سکتی ہے!!
زیروپوائنٹ ....نیا ڈی چوک
جڑواں شہروں میں فیض آباد کو راولپنڈی اسلام آباد کا سنگم مقام کہا جاتا ہے۔ فیض آباد پہنچ کر پتہ چلتا ہے کہ ادھر اسلام آباد انتظامیہ اور دوسری طرف کا کنٹرول راولپنڈی انتظامیہ کے سپرد ہے۔ ایک علاقہ وفاقی دارالحکومت کا کہلاتا ہے جبکہ دوسرے حصہ کے معاملات پر کنٹرول پنجاب حکومت کا ہے۔ اسی فیض آباد کے مقام پر راولپنڈی‘ اسلام آباد اور آزاد کشمیر کے ریزرو پولیس کا پڑا¶ ہے۔ فاضل پولیس اہلکاروں کی یہ ٹولیاں تین روز سے موجود ہیں بہت سے پولیس اہلکار گھاس پر اور دری پر بیٹھ بیٹھ کر ”تھک“ گئے تھے۔ اس فیض آباد سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر فیصل مسجد ہے اور جبکہ 4 کلومیٹر دور زیرو پوائنٹ ہے سماجی‘ سیاسی‘ صحافتی‘ ثقافتی اور سیاحتی حوالہ سے زیروپوائنٹ کو بہت زیادہ اہمیت حامل ہے۔ یہاں شکرپڑیاں ہے جو ملکی شہرت کا حامل ثقافتی اور سیاحتی مرکز ہے جہاں ہر روز پاکستان بھر سے لوگ اس مقام پر آ کر پورے اسلام آباد کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ زیروپوائنٹ پر سی ڈی اے کا بنایا جدید انٹرچینج نے جہاں شہر بے مثال کی خوبصورتی میں اضافہ کیا وہاں اس مقام کی بے ہنگم ٹریفک کو بھی سیدھی کل دی۔ پرویز مشرف دور میں شکرپڑیاں کے مقام پہ منایا گیا ”اسلام آباد مونومنٹ“ نے اس سیاحتی مرکز کو مزید دلکش و دلشاد بنا دیا ہے آج اسی مقام یعنی زیروپوائنٹ کو نئے ڈی چوک کا درجہ مل رہا ہے!! اللہ کریم فضل کرے یہ مرحلہ جاں بھی خوش اسلوبی سے نبٹ جائے ، بقول احمد ندیم قاسمی
خدا کرے مری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو