الطاف کی شرائط‘ نواز شریف کا ”خوف“

بے شک الطاف حسین نے ترپ کا پتہ پھینکا ہے متحدہ کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینٹ سے استعفوں نے وزیراعظم نواز شریف سمیت پوری سیاسی قیادت کو آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ چشم فلک نے کب یہ تحیر آمیز منظر دیکھا ہو گا کہ واضح طور پر وطن دشمن بیانات دینے والوں کی کل تک جو زبانیں مذمت کر رہی تھیں الطاف حسین کے بیانات کو کھلی ملک دشمنی سے تعبیر کیا جا رہا تھا آج وہ اسی الطاف حسین کو منانے کیلئے منتوں ترلوں پر اتری ہوئی ہیں خود کو کڑے احتساب سے بچاﺅ کی تدبیر کرنے کی بجائے متحدہ کی قیادت خود کو منانے کیلئے شرائط منوانے کا چلن اختیار کر چکی ہے ۔کیا اسکی وجہ متحدہ کے استعفوں سے موجودہ نظام کے گرنے کا خطرہ ہے جسے بچانے کیلئے حکمرانوں سمیت تمام سیاسی قائدین سب کچھ چھوڑ کر بس الطاف حسین کو راضی کرنے میں لگ گئے ہیں۔ یہ شرائط کیا ہیں فاروق ستار نے وفاقی وزیر خزانہ اور عملاً وزیراعظم کے تمام سیاسی امور کے نگران اسحاق ڈار کو پیش کی ہیں (1) الطاف حسین کے ٹی وی پر براہ راست خطاب پر پابندی کا خاتمہ، (2) کراچی آپریشن کی نگرانی کے لئے مشترکہ کمیٹی کا فوری قیام (3) رینجرز غیر جانبداری کا مظاہرہ کرے (4)زیر حراست افراد کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کیا جائے۔ (5) لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کیلئے فوری اقدامات کئے جائیں۔ ان پانچ مطالبات کا جائزہ لیا جائے ٹی وی خطاب پر پابندی بھارت اور نیٹو افواج سے مدد مانگنے پر لگائی گئی ہے اسے ختم کرنے کا مطلب اس سنگین اقدام کو نظرانداز کرنا ہو گا۔
کراچی آپریشن کی نگرانی کےلئے کمیٹی کا مطلب ہے کہ اس آپریشن کا ہدف وہ ہو جو یہ کمیٹی منظور کرے۔ رینجرز کو غیر جانبدار ہونے کا مطلب ہے کہ اب تک رینجرز نے کراچی میں جو کارروائی کی ہے وہ جانبداری ہے اور غیر جانبداری کا مطلب کسی ایک شخص‘ فریق یاپارٹی کیخلاف ناانصافی ہے۔ گرفتارشدگان کو فوری طور پر عدالتوں میں پیش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ رینجرز کو دہشتگردی کے ملزمان کو 90 روز کےلئے زیر حراست رکھنے کا جو آئینی اختیار دیا گیا ہے وہ واپس لیا جائے۔ سوال یہ ہے اگر یہ شرائط مان لی جاتی ہیں تو کراچی میں جاری آپریشن کو بدستور جاری رکھا جا سکے گا اور رینجرز نے اب تک جو کچھ کیا ہے اور اسکے نتیجے میں شہریوں کو روٹھا ہوا امن و امان دوبارہ ملا ہے، وہ قائم رہ سکے گا اور پھر سب سے اہم یہ کہ فوج کی ساکھ کا کیا بنے گا، سوال پیدا ہوتا ہے کیا وزیراعظم نواز شریف ان شرائط کو ماننے کی پوزیشن میں ہیں کیا کراچی میں جاری آپریشن پر فوج سمجھوتہ کر سکتی ہے اس کا جواب ہے ہرگز نہیں، تو کیا وزیراعظم متحدہ کو واپس اسمبلیوں میں لانے کےلئے فوج کی مرضی و منشاءکیخلاف فیصلے کرینگے اور ایسا کرینگے تو اسکے نتائج موجودہ نظام پر کیا اثرات مرتب کرینگے جسے بچانے کیلئے وہ متحدہ کے ارکان اسمبلی کو واپس لانے کیلئے تگ و دو کر رہے ہیں۔ الطاف کو منانے کی ذمہ داری مولانا فضل الرحمن کے سپرد کر دی گئی ہے۔
مولانا فضل الرحمن نے مشورہ دیا استعفے منظور کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔ سپیکر ایاز صادق نے متحدہ کے ارکان سے واضح تصدیق کرائی کہ ان استعفوں کےلئے ان پر کوئی دباﺅ تو نہیں ہے جواب ملا ”بلڈ پریشر“ کے سوا کوئی دباﺅ نہیں استعفے دیتے وقت اگر وہ بلڈ پریشر کا شکار تھے تو اس کا مطلب کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا کہ استعفے ذاتی دباﺅ میں دیئے گئے ہیں۔ فاروق ستار نے تو کھل کر کہا ہے کہ استعفے بھاری دل سے دیئے گئے ہیں۔“ در اصل یہ الطاف حسین کا حکم تھا جس کی تعمیل کی گئی اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ یہ الطاف حسین نے ترپ کا پتہ پھینکا ہے تو یہ بات یوں سمجھ میں آ سکتی ہے کہ استعفیٰ کسی صورت میں منظور ہو گئے تو یہ ارکان متحدہ سے جڑے رہیں گے کیونکہ آئینی طور پر نوے دن کے اندر انتخابات کی صورت میں انہیں دوسری پارٹیوں کے ٹکٹ نہیں مل سکیں گے اور آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنا ان کیلئے ممکن نہیں ہو گا اس لئے وہ مجبوراً متحدہ سے ہی وابستہ رہیں گے دوسرے اگر وہ اسمبلیوں میں رہتے ہوئے ازخود استعفیٰ دیکر نئی ایم کیو ایم میں شامل ہوتے تو اس کا ووٹروں پر دوسرا نفسیاتی اثر ہوتا بالخصوص جب متحدہ خود کو اسٹیبلشمنٹ کے مدمقابل لا چکی ہے۔
تاہم اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ استعفیٰ دینے کے بعد یہ ارکان الطاف حسین اور رابطہ کمیٹی کے دباﺅ سے آزاد ہو جائینگے لیکن انہیں زیر دباﺅ رکھنے کیلئے الطاف حسین نے استعفوں کیساتھ ہی تحفظات دور کرانے کی صورت میں یہ استعفے واپس لینے کا اعلان بھی کر دیا ہے اسکے نتیجے میں حکومت سے ممکنہ سمجھوتہ کے پیش نظر یہ ارکان اپنی اسمبلی رکنیت برقرار رکھنے کےلئے نہ صرف متحدہ سے جڑے رہیں گے بلکہ الطاف حسین کی حمایت میں بڑھ چڑھ کر بیانات دینگے جس سے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر الطاف حسین کے غیر متنازعہ اور متفقہ قائد ہونے کا تاثر پیدا ہوگا یہ تو الطاف حسین کی ترپ چال ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یا وزیراعظم نوازشریف متحدہ کو ہر صورت اسمبلیوں میں رکھنے کیلئے اضطراب کا شکار کیوں ہوگئے ہیں۔ اس طرح انہیں دو طرح کے خوف لاحق ہیں ایک موجودہ نظام کیلئے خطرہ دوسرا کہا جاتا ہے کہ انکے قریبی حلقوں نے انہیں یہ باور کرا دیا ہے کہ اگر متحدہ کے استعفے منظور کئے گئے تو ضمنی الیکشن میں کراچی اور حیدرآباد میں تحریک انصاف فائدہ اٹھائے گی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنی ناقص کارکردگی اور کرپشن کے الزامات کے باعث انتخابات میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکے گی۔
وزیراعظم نوازشریف نے شاید میثاق جمہوریت کا ”کرشمہ“ ہے کہ مواقع ہونے کے باوجود سندھ میں (ن) لیگ مستحکم بنانے کی ضرورت کو نظر انداز کیا۔ اسکے بدلے میں شاید پیپلزپارٹی پنجاب میں (ن) لیگ کیلئے سیاسی مشکلات پیدا کرنے سے اجتناب کر رہی ہے۔ اس صورت میں کوئی بھی تیسری پارٹی وہ تحریک انصاف ہو یا کوئی اور جسے عوام میں مقبولیت بھی حاصل ہو کراچی اور حیدرآباد کے ضمنی انتخابات میں پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ دونوں سے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ اسی لئے اگر وزیراعظم نوازشریف کی یہ خواہش اور کوشش ہو کہ شہری سندھ میں متحدہ ہی نمائندہ ر ہے تو اس لئے تعجب خیز نہیں کہ متحدہ صرف کراچی اور حیدرآباد تک محدود ہے جبکہ تحریک انصاف ان دونوں شہروں میں بہتر پوزیشن حاصل کرے تو وہ ملک گیر سطح پر (ن) لیگ کو زیادہ بہتر انداز میں چیلنج کر سکے گی اس حوالے سے دیکھا جائے تو (ن) لیگ اور متحدہ بلکہ زیادہ صحیح طور پر الطاف حسین کا مفاد‘ حکومتی کوششوں سے متحدہ کے استعفوں کی و اپسی سے وابستہ ہے۔

ای پیپر دی نیشن