کوئٹہ سانحہ نے ایک بار پھرقوم کوہلا کر رکھ دیا ہے۔ بلوچستان میں تخریبی کاروائیاں اورخودکش حملے معمول کے سانحہ بن کر رہ گئے ہیں لیکن 8 اگست کو 50 سے زائد وکلاءشہید ہوگئے اور100 کے قریب لوگ شہید ہوئے۔آرمی پبلک سکول کے سانحہ نے دوسال قبل سول، عسکری اور عوام کو متحدکردیا تھا لیکن کوئٹہ سانحہ نے سول اور فوج کے مصنوعی اتحاد کو بے نقاب کردیاہے۔گزشتہ ایک سال سے سول اور فوجی قیادت میں تناﺅ چل رہا ہے۔ خارجہ پالیسی خاص طور پر امریکہ اور بھارت سے تعلقات پر اتفاق نہیں ہے۔ اسی طرح کرپشن کے معاملات میں فوجی سربراہ کا بڑا سخت موقف ہے۔ اقتصادی راہداری کو چلانے کے حوالے سے بھی اختلافات ہیں۔کوئٹہ سانحہ ہونے کے بعد جنرل راحیل شریف سب سے پہلے کوئٹہ پہنچے جس کے بعد وزیراعظم اور دیگر لوگ پہنچے۔ اس طرح آرمی چیف نے اپنے آپکو ایک ذمہ دار محب وطن اور بروقت کاروائی کرنے والا لیڈر ثابت کیا۔ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ "Man of Action"ہیں اگلے دن کورکمانڈر کانفرنس منعقدکی جس میں انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب کو ناکام بنانے کیلئے کوئٹہ میںعدلیہ کو نشانہ بنایا گیا۔کورکمانڈر نے اس عزم کا اظہارکیا کہ ضرب عضب کے ثمرات ضائع نہیں کرنے دینگے۔ دہشت گردی کا صفایا کرنے کیلئے ٹارگٹڈ اورکومبنگ آپریشن تیزترکردئیے جائینگے۔ عسکری طاقتیں سر جوڑ کر بیٹھی تھیں کہ حکومت کے حمایتیوں نے ایجنسیوں اور فوجی قیادت پر تیز و تند حملے شروع کر دئیے۔ محمود خان اچکزئی نے الزام عائدکیا کہ کوئٹہ واقعہ خفیہ اداروں کی ناکامی کا پیش خیمہ ہے۔”شریفوں“ کے علیحدہ علیحدہ جانے کا تاثراچھا نہیں نکلا۔ محض بھارتی خفیہ ادارے ”را“ پر الزام عائدکرنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ ملک دشمن عناصرہماری ایجنسیوں کی بے رول پر ہیں۔ ہماری ایجنسیاں گدلے پانی سے سوئی ڈھونڈ سکتی ہیں تو دہشت گردوں کی تلاشی میں کیوں ناکام ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کہاں پیچھے رہنے والے تھے انہوںنے کہا کہ ایجنسیاں بار بار رک جاتی ہیں اور ہم بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ زبان پر ”را“ کا لفظ آتے ہی بات ختم ہوجاتی ہے انہوں نے کہاکہ اس طرح بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا یہ ناکامی ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران اپنے اتحادیوں کی ہاں میں ہاں نہ ملائی اورکہا کہ خفیہ ادارے دشمن کے عزائم ناکام بنانے کیلئے کام کر رہے ہیں ۔ دہشت گردی کےخلاف ہمارا اتحاد ہی شیطانی قوتوں کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے ملکی ترقی کے دشمنوں کو اقتصادی راہداری ہضم نہیں ہو رہی ۔ بلوچستان کو دہشتگردوں نے ہدف بنالیا اور یہ باقاعدہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔گمراہ کن نظرئیے کی وجہ سے دہشتگردوں نے بے نظیرکو چھینا۔ یہ آئین، عدلیہ سلامتی کے اداروں کا دشمن ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ملک محفوظ زندگی دینا بھی سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشیدشاہ نے پیپلزپارٹی کا نقطہ نظربیان کیا اور مطالبہ کیا کہ پارلیمانی کمیشن بنا کردہشت گردی پر تمام اداروں کو جوابدہ کیا جائے۔ چوہدری نثارعلی خان محب وطن اور بہادر راہنما ہیں۔ انہوں نے کسی مصلحت کی پرواہ کئے بغیرکہا کہ ملکی ایجنسیوں کےخلاف بولنے والے کاش ”را“کےخلاف بھی بیان دیتے۔ حکومت اورحکومتی اتحادیوں کے بیانات نے اندرخانے جنگ کو اوپن کر دیا اور12 اگست کوآرمی چیف نے اعلیٰ فوجی قیادت کا اجلاس بلاکرسخت بیان جاری کردیا جس میں انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان پر پیش رفت نہ ہونے سے ضرب عضب متاثر ہو رہا ہے ۔ بعض حلقوں کے بیانات اور تجزئے قومی وقارکو نقصان پہنچا رہے ہیں ۔ فریقین کی طرف سے بامعنی اور مناسب اقدامات نہ ہونے سے امن قائم نہیں ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان ہمارے مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے انکی سست روی سے آپریشن ضرب عضب کے استحکام کا مرحلہ متاثر ہو رہا ہے۔ دہشتگردی کےخلاف طویل جنگ اختتام کے قریب ہے۔ پاک سرزمین سے دہشتگردی کی لعنت کا خاتمہ کرکے رہیں گے۔ایک دوسرے پرالزمات کے دوران ”معاملہ فہم“خادم اعلیٰ بھی پیچھے نہ رہ سکے جمہوریت کیلئے انہوں نے جلاوطنی برداشت کی تھی ان سے جلاوطنی کے دوران امریکہ، برطانیہ اور سعودی عرب میں ملاقاتیں ہوتی رہیں اس وقت ہم لوگ تحریک بحالی جمہوریت (ARD) کے پلیٹ فارم پر جنرل مشرف کیخلاف جدوجہدکر رہے تھے۔ میاں شہبازشریف نے فرمایاکہ پاکستان میں چارمارشل لاءآئے ۔کسی نے اسلام کے نام پر پاکستان پرقبضہ کیا توکسی نے سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگا کرقوم کو دھوکا دیا اورکسی نے پاکستان کے عوام کے مسیحا کا روپ دھارکر ملک کا چہرہ بگاڑا۔میاں شہبازشریف ایک تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ایک فوجی حکمران کا ساتھ دیا ہے اور ایک فوجی حکمران کی مخالفت بھی کی ہے۔ جنرل راحیل شریف کے ساتھ انکے بڑے اچھے تعلقات ہیں ۔ وزیراعظم نوازشریف نے آرمی چیف کیساتھ اتنی خصوصی میٹنگ نہیں کی ہونگی جتنی خادم اعلیٰ نے کی ہیں۔ وہ بڑے زور و شورکے ساتھ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حامل ہیں اورانکے خیال کےمطابق جھگڑے کی اصل وجہ ہی یہی ہے۔ اب ایک نئی بات سامنے آ گئی ہے کہ حکومت نے جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بننے کی پیشکش کی ہے۔ عمران خان بڑے زور و شورکے ساتھ حکومت کیخلاف تحریک چلا رہے ہیں۔ گزشتہ روز PTI نے راولپنڈی سے اسلام آباد ریلی نکالی جس میں عمران خان نے کہ حکومت نے انصاف کے تمام دروازے بند کردئیے ہیں۔ میاں نوازشریف جنرل راحیل شریف کو باربار فیلڈ مارشل بننے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ پرحملہ کرنےوالے ہمیں جمہوریت کا سبق دیتے ہیں۔آمریت کی گود میں پرورش پانے والے جمہوریت کا درس دیتے ہیں جمہور یت کو وہ لوگ خطرے میں ڈال رہے ہیں جو پانچ ماہ سے پانامہ پرجواب نہیں دے رہے۔
بلاشبہ جمہوریت میں تمام ادارے پارلیمنٹ کے زیرنگرانی چلتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جب پارلیمنٹ اورسول ادارے ہی بے وقعت ہو جائیں تو پھر ملک و قوم کاکون رکھوالاہوگا۔ جمہوریت کے ہم سب حامی ہیں لیکن لوگ پوچھتے ہیں کہ جمہوریت ہمیں کیا دے رہی ہے۔ مایوسی، بھوک، خودکشیاں اور بچے اغوائ۔فوج کو کمزور کرنے سے بھی ملک کا وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔ اتحادیوں کی زبان بندکرانا ہوگی۔ اچکزئی کا بھائی گورنر بلوچستان ہے انہوں نے جمہوریت کی خاطر استعفیٰ کیوں نہیں دیا اور یہ وہی اچکزئی ہے جو KPK کو افغانستان کا حصہ قرار دیتا ہے ۔ ہمیں اصل دشمن کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔