گزشتہ منگل کو سینٹ پیٹرربرگ میں صدر پیوٹن سے صدر طیب اردوان کی تاریخی ملاقات ہوئی ہے ترکی ناٹو کا ممبر اور امریکہ کا قریب اتحادی رہا ہے مگر حالیہ ناکام انقلاب کی پیشگی اطلاع صدر پیوٹن نے صدر طیب اردوان تک پہنچائی تھی اسی لئے پیشگی جوابی حکمت عملی سے انقلاب ناکام ہوا اس انقلاب کی ناکامی نے ترکی کو امریکہ سے بہت دور اورروس سے بہت قریب کر دیا ہے طیب اردوان کا عہد حکومت مشرق وسطٰی میں ترک سرگرم کردار کا حامل ہے شام جو ماضی بعید میں ترک خلافت کا علاقہ تھا اور پڑوسی ملک ہے میں بشارالاسد کے مسلسل ظلم نے طیب اردوان کو مظلوم شامی مسلمانوں کا حامی بنایا تھا بشارالاسد واحد مسئلہ تھا جس پر مصر اور ترکی دونوں متفق تھے حالانکہ صدر محمد مرسی کو انقلاب کے ذریعے محروم اقتدار کرنے کے عمل نے جنرل عبدالفتاح السیسی اور اردوان میں بہت زیادہ تلخی پیدا کر رکھی ہے امریکہ نے اپنے عرب اتحادیوں کے ساتھ پہلے عراق میں دھوکہ کیا ایران اور ہمہ گیر شیعہ اقتدار کے متمنی آیات اﷲ حضرات سے 9/11 سے بہت پہلے سرگرم تعلقات قائم کئے‘ عراق میں قدم بقدم شاہ عبداﷲ کی صلح کل کوششوں کو نیست و نابود کرکے عراق کو مکمل طور پر سنی دشمن حکومت کے ذریعے ایرانی توسیع پسندانہ خواہشوں کو کامیاب بنایا شاہ عبداﷲ کا آخری عہد امریکہ سے شدید ناراضگی کا تھا شاہ عبداﷲ شیعہ و سنی مفاہمت کی حکومت کے قیام اور کامیابی کیلئے ہمیشہ متحرک رہے کیسا ظلم ہے کہ داعش جو بظاہر شیعہ دشمن ہے وہ ایران دشمنی میں مبتلا ہونے کی بجائے صرف سعودی دشمن بن کر ابھری‘ اسرائیل کی پراسرار اتحادی بھی امریکہ کی خاموش ممنون بھی .... ابوبکر البغدادی نے خود کو نسلاً ہاشمی ثابت کیا اور خود کو ہاشمی خلافت کا وارث ثابت کرکے حرمین شریفین پر حکومت کا استحقاق دیا اور سعودی حکومت کے خاتمے کی جدوجہد کا اعلان کیا درست م¶قف یہ ہے کہ خلیجی اور سعودی امریکہ کی ڈبل گیم کو بہت عرصے سے اسی طرح سمجھے ہوئے تھے جیسا کہ پاکستان کو جنرل مشرف سے امریکہ کے انہدام طالبان راہنما ملا عمر کی حکومت کے خاتمے میں کام لے کر بھارت کو افغانستان میں بنیادی کردار دیتا دکھائی دیا تھا مسقط ایرانی امریکی خفیہ ایجنسیوں کے روابط اور مفاہمت کا مرکز ثابت ہوا اسی لئے خلیجی و سعودی اذہان ہمیشہ مسقط کی سیاست کو بہت توجہ سے سمجھنے میں مصروف رہے ہیں سیاسی حکمت عملی کو اگر سمجھنا ہو تو احمدی نژاد کے عہد صدارت کے اسرائیل دشمنی اعلانات اور یہودیوں سے سرگرم تعلقات پر مبنی اقدامات پر غور کرنا چاہیئے یہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کامیاب سیاست تھی ۔ کہنے کو داعش نے برطانیہ اور فرانس کے 1916کے مشرق وسطٰی تقسیم خفیہ معاہدے کا عراق و شام میں موجود سرحدوں کے خاتمے کے ذریعے جرا¿ت مندانہ عمل پیش کیا اور دونوں ممالک کی سرزمین پر داعش خلافت کا نفاذ کیا،مگر قابل غور بات یہ ہے کہ 1919میں برطانیہ کے وزیر خارجہ بالفور کے مالدار یہودی حکمت کاروں سے ارض فلسطین پر اسرائیل مذہبی یہودی ریاست قائم کرنے پر ایک لفظ بھی نہیں کہاتھا اس سے سب کچھ سمجھ نہیں آجاتا کہ سعودی دشمنی میں کون کون اور کس کس انداز میں متحریک رہا ہے؟سوویت یونین آف رشیا نظریاتی کمیونسٹ تھی۔اس نے مشرق وسطٰی میں بادشاہتوں کے خاتمے کے ذریعے مصر،یٰمن اور پھر شام اور بعدازاں لیبیاءمیں عسکری انقلابات کے ذریعے سوشلست ایجنڈے کی حامل حکومتیں قائم کیں اور عملاً حرمین شریفین کی خادم اور مو¿تمر عالم اسلامی کے ذریعے سعودی اسلامی سیاست کرتی حکومت کے اردگیر گھیرا تنگ کیا ۔
تازہ منظر میں غور کریں اگر ترک صدر طیب اردوان دوستی کی نئی بنیادیں قائم کرنے کیلئے روسی صدر پیوٹن سے سینٹ پیٹرر برگ میں ملے اور ترک روس تعلقات کے نئے عہد کا آغاز کیا یہی کچھ مگر ذرا تدبر و فراست سے سعودی شاہ عبداللہ نے چین اور روس کا دورہ کرکے کیا مگر تدبر کا راستہ اپنایا سعودی ڈپٹی ولی عہد اور وزیر دفاع شہزادہ محمد بن سلمان نے ماسکو جاکر روسی صدر سے جو ملاقات کی تھی اس کا مقصد وہی نہ تھا جو طیب اردوان نے عملا کیا ہے؟شاہ عبداللہ نے تو روس کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ بھی دیا تھا۔گویا وہ عملاً امریکی ایمپائر کے مشرق وسطٰی میں خود غرضانہ کردار کا متبادل تلاش کرتے رہے تھے مگر یہ صدر پیوٹن تھے جن کی طرف سے سعودی عرب سے وفاکی بجائے بد عہدی ہوئی اور روس نے بھی ایرانی توسیع پسندی میں وہی کردار اپنالیا جو پر اسرا طریقے سے امریکہ و مغرب 9/11سے پہلے ایران اور عراقی آیات اﷲ حضرات کے ساتھ طے کرچکا تھا۔اس منافق دنیا میں اگر سعودی عرب نے صرف پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھا تھا اور ہماری پارلیمنٹ نے محمود اچکزی کے سعودی دشمن سرگرم خطاب کے بعد جس سعودی مخالف رویہ کو پیش کیا تو ریاض کا دل کتنا زخمی تھا؟مگر سعودی عرب صبرسے یہ پاکستانی صدمہ سہہ گےا ہے کیا ترک روس نیا عہد خلیجی و سعودی،پاک اور روسی نئے عہد کی طرف گامزن ہوسکے گا؟اس کا انحصار خود صدر پیوٹن اور روسی اسٹیبلشمنٹ کے رویوں میں مضمر ہے ،جنرل راحیل شریف نے جرا¿ت سے سعودی نظرےے اور جغرافیئے کی حفاظت کا جو عہد کیا تھا کیا وہ غلط ہے؟یاد رہے پاکستان امریکہ سے وہی کچھ وصول پا چکا ہے جو کچھ سعودی عرب نے وصول پایا تھا۔اس اعتبار سے سعودی تجربہ اور پاکستانی تجربہ یکساں ہے۔شاہ عبداللہ نے ہمہ گیر شیعہ دوستی کے مسلسل چراغ جلائے۔حافظ الاسد کے مظالم کو بھول کر بشار الاسد کو گلے لگایا اور شفقت دی مگر جواب میں اس بشار نے ریاض کے دوست اور دروز شیعہ کے اتحادی حریری کو لبنان میں قتل کروایا ،شاہ نے عراق کے مسلمہ شیعہ گدی نشین خاندان کے مقتدی الصدر کو مدعو کیا،پھر ایمپائر بننے کے متمنی انقلابی مگر سعودی دشمنی میں مبتلاءملک کے کئی صدور کو ریاض مدعو کیا۔یوں اتحاد ملت اسلامیہ اور وحدت امت مسلمہ کا خواب پورا کیا مگر اس وسیع المشرب شاہ کو یا ولی عہد کو کبھی ایران میں مدعو کرکے حسن اخلاق اور دوستی کا باب رقم کیا گےا ہے؟