پچھلے دنوں عبدالستار ایدھی صاحب کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کا سلسلہ جا ری رہا انکے بارے میں بہت کچھ سننے کو اور پڑھنے کا موقع ملا لیکن مجھے جس چیز کی تلاش تھی وہ یہ تھی کہ ایدھی کی زندگی میں ایسی کو نسی ہستی تھی جس نے اسکے دل میں دوسروں کے لیے اس قدر ہمدردی اور پیار بھر دیا ۔ مجھے اس کا جواب مل گیا جب میں نے پڑھا کہ اس کی ماں اس کے بچپن میں جو جیب خرچ دیتی تھی اس میں سے آدھا دوسروں پر خرچ کرنے کی تلقین کرتی تھی ۔ اصل میں یہ ہوتی ہے ماں کی تربیت یہ ایک ماں کو بو یا ہوا وہ بیج تھا جو انسانیت کے لیے اس قدر پھل دار اورسایہ دار شجر بنا کہ ایک مثال بن گیا ۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ عظیم مائیں ہی عظیم افراد اور قومیں بناتی ہیں لہذااس ماں کو معاشرے میںوہ عزت اور اہمیت ملنی چاہیے جس کی وہ حق دار ہے ۔ یہی عزت اور اہمیت اس میں وہ وسعت اور صلاحیت پیدا کرتی ہے کہ وہ اپنی گود میں ایسے بچوں کی پرورش کرتی ہے جو پو ری قوم کے لیے باعث فخر بنتے ہیں جب اچھی ماں کی بات ہوگی تو اچھی عورت کی بات ہوگی ایک باکردار ، نیک ، وسیع النظر، روشن دماغ عورت ایک ایسی نسل پروان چڑھاسکتی ہے جس میں خیر زیادہ ہو ۔ آج ہمارے معاشرے کو ایسی ماﺅں کی بہت ضرورت ہے جبکہ پو را معاشرہ تنزلی کی طرف جا تا نظر آرہا ہے ۔ ایسی ماﺅں کو پنپنے کے لیے بھی ساز گار ما حول کی ضرورت ہے ۔
ایسے معاشرے جہاں پر عورت کی عزت و حفاظت کے مناسب اقدامات نہیں کیے جاتے وہاں کی عورتیں ہمیشہ اپنے آپ کو غیر محفوظ اور بے یقینی کی کیفیت میں پاتی ہیں اب جو عورت خود اندر سے مضبوط نہیں وہ کیسے اپنی گود میں پلنے والے بچے کی شخصیت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کر ے گی؟ کیسے اس کے اندر کردار و افکار کی مضبوطی پیدا کرے گی ؟
اسلام نے عورت کو جو حقوق اور سہولتیں دی ہیں اس کی مثال آج کے جدید معاشروں میں بھی نہیں ملتی۔ بعض مواقع پر عورت کے ساتھ محرم کی شرط لگا کر اسلام نے گو یا عورت کو ایک مستقل گارڈ دے دیا تا کہ کو ئی اسکی کمزوری سے فائدہ نہ اٹھا سکے ۔ شرم و حیا کے پردے میں رہنے کی تلقین کرکے گو یا اس کو گراں قدر اور قیمتی بنا دیا گیا آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ نازک اور بیش قیمت چیزیں کبھی کھلی نہیں چھوڑی جاتیں بلکہ اسکی حفاظت کے لیے ہمیشہ انہیں کور کیا جاتا ہے ۔ آج معاشرے میں تیزی سے پھیلتے عورتوں کے قتل ،خودکشیوں اور آبرو ریزیوں کے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ اگر عورتیں یا بچیاں ایک باوقار اور باحیا طرز عمل اختیار کریں تو نہ صرف وہ خود انکے والدین بلکہ تمام معاشرہ بہت سی قباحتوں اور فتنہ و فساد سے بچ جا ی گا ۔ اسلام نے عورت کو مہر لینے کا حق دیا ہمارے معاشرے میں مہر دینا غیر ضروری بنا دیا گیا۔ معمولی سا مہر بطور ٹوکن نکاح کے وقت مقرر کیا جاتا ہے جبکہ جہیز لینا لڑکے یا انکے گھر والے اپنا حق سمجھتے ہیں ،عورت کی اہمیت کا تعین اسکے سسرال میں اسکے اخلاق و کردار کے حوالے سے کم اور اسکے ساتھ آنے والے جہیز سے زیادہ ہو تا ہے ۔ ایسے معاشرے میں ہم ایک مضبوط دل و دماغ کی عورت کی توقع کیسے کر سکتے ہیں جہاں پر اسے وراثت کا حق نہیں دیا جاتا جہاں پر عورت کو انکے وراثتی حق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ لہٰذا ایسے معاشرے جہاں پر عورت کو اسکے حقو ق اور عزت نہیں دی جائیگی وہاں پر ہم ایسی مضبوط اور باوقار ماﺅں کی توقع کیسے کرینگے جو مستقبل میں ہمیں باکردار اور مضبوط نسل دیں ۔ اسکے علاوہ عورتوں نے بھی اپنے اندر وہ شخصی خواص پیدا کرنے میں جس کی تعلیم ہمیں ہمارے مذہب نے دی ہے اپنی عفت و عزت کی حفاظت کرنی ہے اچھے برے اور حرام وحلال میں فرق کرنا ہے تا کہ وہ اپنی اولاد کیلئے ایک صیح رول ماڈل بن سکیں ۔ مرد نے بھی عورت کیلئے باپ‘ بھائی‘ خاوند اور بیٹے کی شکل میں مضبوط ڈھال بننا ہے تاکہ وہ بھی معاشرے میں اپنا کردار بطور بہترین بیٹی‘ بہن‘ بیوی اور ماں کے ادا کر سکے۔