قیام پاکستان سے ’’استحکام‘‘ پاکستان تک

Aug 16, 2016

....شوکت علی شاہ....

مشہور فرانسیسی مفکر روسو نے کہا تھا۔’’انسان آزاد پیدا ہوا تھا‘ لیکن ہر طرف زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے‘‘۔ یہ زنجیریں جبر و استبداد کی نہیں‘ یہ زنجیریں ظلم اور زیادتی کی ہیں‘ ناروا پابندیوں کی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسان ازل سے ہی چند صیدِ زبون شہریاری رہا ہے۔ انسان کی انسان کو غلام بنانے کی حرص و ہوس نے کبھی دم نہیں توڑا۔ چشم ِ عبرت نے کھوپڑیوں کے مینار بنتے دیکھے ہیں۔ الغرض آدمی کا شیطان آدمی رہا ہے۔
ہندوستان کے مسلمانوں کی بدقسمتی یہ تھی کہ ان کا پالا دو شیطانوں سے پڑا تھا۔ ایک وہ جو اپنی ایمپائر کے ڈوبتے ہوئے سورج کو بڑی حیرت اور حسرت سے تک رہا تھا‘ دوسرا صدیوں کا حساب چکانے کیلئے تیزی سے سازشوں کے جال بُن رہا تھا۔ فلسفہ تقدیر اُمم کیا ہے؟ جب سلاطین اپنے آپ کو مشتِ غبار سمجھنے لگیں اور شاہاں ’’ایں دفترِ بے معنی غرق مے ناب اولیٰ‘‘ کا ورد کرنے لگیں تو پھر تباہی اور بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
انگریز مسلمانوں سے بوجوہ پُرخاش رکھتا تھا۔ اولاً اس نے اقتدار ان سے ہتھیایا تھا اور پھر 1857ء کی جنگ آزادی بھی انہوں نے ہی لڑی تھی۔ ہندوئوں کیلئے ہزار برس کی غلامی کا حساب چکانے کا یہ نادر موقع تھا۔ گو اس تمام عرصے میں مسلمانوں کا سلوک مربیانہ تھا۔ انہوں نے انکی خوشنودی کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا۔ اکبر تو اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ ’’دین الٰہی‘‘ بنانے کی ناپاک جسارت کر بیٹھا۔ ایک ہندو عورت جودھا بائی سے شادی کی جس کے بطن سے جہانگیر پیدا ہوا۔ باایں ہمہ ہندوئوں نے انہیں ہمیشہ ملیچھ سمجھا اور نفرت کے جہنم زار سے کبھی باہر نہ نکل پائے۔ انگریزوں نے جب سوچی سمجھی سکیم کے تحت ہندوستان پر قبضہ کیا تو ہندو ان کے ممد اور معاون بنے۔
اس تناظر میں تحریک آزادی شروع ہوئی۔ دو عالمی جنگوں نے برطانوی سامراج کی طاقت پر کاری ضرب لگائی۔ تمام دنیا میں آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ ہندوستان میں بھی ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے۔ مسلمانوں نے مقدور بھر کوشش کی کہ بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندگی گزاری جائے۔ اس کے تحت (Proportional Representation) ضروری تھا۔ یہ تجویز ہندوئوں کو گورا نہ تھی۔ وہ انہیں اکثریت کا غلام بنانا چاہتے تھے۔ خوش قسمتی سے انہیں ایک ایسا لیڈر ملا جس کے عزم میں فولاد کی سی صلابت تھی۔ ہمت اور حوصلے میں قُلزموں کی گہرائی تھی۔ ذہن رسا آنے والے کل کا ادراک رکھتا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح کے ایک جملے نے دو قومی نظریئے کا جواز پیدا کیا۔ فرمایا Gandhi Says We Should not Divide India Into Two parts It Means We Should Not Cut Cow Into Two Parts ہندو ازم اور اسلام ریل کی دو پٹڑیوں کی طرح ہیں جن کا کبھی ملاپ نہیں ہوتا۔ مذہب الگ‘ عبادات الگ‘ رہن سہن مختلف‘ کلچر علیحدہ‘ جس شخص کو چھونے سے برہمن بھرشٹ ہوتا ہے‘ بھگت گیتا کا اشلوک سننے سے اس کی پوترتا پر حرف آتا ہے‘ وہی غریب شخص عید کے دن مسلم عمائدین سے گلے ملتا ہے۔ قاری کی قرأت سے اس کی روح کو بالیدگی ملتی ہے۔
نوجوان نسل کو یہ بتانے کی اشد ضرورت ہے کہ جب مسلمانوں نے ایک الگ ملک کا مطالبہ کیا تو مخالفت کا ایک طوفان کھڑا ہو گیا۔ اسے مجذوب کی بڑ اور دیوانے کا خواب کہا گیا۔ غیر تو غیر‘ اپنے بھی کسی غلط فہمی یا خوش فہمی کی وجہ سے ہندوئوں کے بہکاوے میں آگئے۔ ان میں سرفہرست مولانا ابوالکلام آزاد اور حسین احمد مدنی تھے۔ مولانا آزاد ایک جید عالم دین تھے‘ لیکن سیاسی سوچ ناپختہ تھی۔ اسی لئے قائداعظم ان کو Show Boy of Congressکہا تھا۔, India Wins Freedom پڑھیں تو تاسف کے سائے انکی شخصیت پر پڑے صاف دکھائی دیتے ہیں اور بین السطور ایک ہی تاثر ملتا ہے۔ میں پشیماں ہوں‘ پشیماں ہے میری تدبیریں۔ حسین احمد مدنی نے وطنیت پر ایک صخیم کتاب لکھی۔ اس کا مؤثر جواب علامہ اقبال نے دیا …؎
قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہہ شیر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
آزادی چاندی کی طشتری میں رکھ کر نہیں ملی۔ ایک قُلزم خوں تھا جسے عبور کرکے ہم نے پاکستان بنایا۔ اس کے حصول کیلئے ان گنت سربریدہ ہوئے‘ لاکھوں خاک و خون میں غلطاں ہوئے۔ پتھرائی ہوئی بے نور آنکھوں نے اپنے سہاگ اُجڑتے دیکھے۔ بوڑھے باپوں کی کمریں کمابنیں۔ ایک طویل عرصہ تک رقصِ ابلیس ہوتا رہا۔ ہندو خونِ مسلم سے ہولی کھیلتے رہے۔
آج جب ہم یوم آزادی منا رہے ہیں تو ہمیں اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے۔ زندہ قومیں خوشی کے موقع پر بھی تجزیہ و احتساب کرتی ہیں۔ کیا مسلمانان ہند نے جو خواب دیکھا تھا‘ اس کی تعبیر نکل آئی ہے؟ کیا ایک خدا‘ ایک کتاب اور ایک رسولؐ کے نام لیوا شیروشکر ہیں۔ بھائی چارے‘ ایثار‘ خلوص کی فضا میں زندگی گزار رہے ہیں؟ آج جب شہداء کی روحیں اس ملک کا طواف کرتی ہونگی‘ اگر وہ خوش ہوتی ہونگی تو ہمیں بھی خوش ہونا چاہئے۔ بالفرض وہ مضطرب اور مضمحل ہیں تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ کہیں ہم سے کوئی بھول تو نہیں ہو گئی۔ اس طویل سفر میں لغزش پا تو نہیں ہوئی۔
حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم شرمندہ ہیں۔ ہر طرف نفرت کے جہنم زار ہیں۔ چارسُو فرقہ واریت ہے‘ علاقائی عصبیت ہے‘ لسانیت کے جھگڑے ہیں۔ معیشت دم توڑتی ہوئی‘ غربت ہاتھ جوڑتی ہوئی‘ کاروان حیات تنگنائوں اور مہیب گھاٹیوں سے گزرتا ہوا اور صدائے جرس کارواں کانوں میں زہر گھولتی ہوئی کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نے یہ شعر برسوں پہلے نہیں بلکہ آج کہا ہے …؎
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
اس کی بنیادی وجہ حکمرانوں کی کرپشن‘ نااہلی اور ہوس اقتدار ہے۔ گزشتہ ستر برسوں میں قائد کے بعد کوئی ایک بھی حکمران ایسا نہیں آیا جس نے ملک و قوم کا سوچا ہو۔ جو ذات کے حصار سے باہر نکلا ہو‘ جس کی سوچ قومی اُمنگوں سے ہم آہنگ ہو‘ ذرا اپنی تاریخ پر اچٹنی سی نظر ڈالیں‘ قائد نے بے بسی کے عالم میں رحلت فرمائی تھی، سو چل بسے۔ کیا تصور کیا جاتا ہے کہ قوم کے محسن‘ گورنر جنرل پاکستان کی زیارت سے واپسی پر کسی بڑے عہدیدار نے ’’ریسیو‘‘ نہ کیا۔ ایک ٹوٹی ہوئی ایمبولینس میں لیاری ندی کے قریب وہ اس حیاتِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ لیاقت علی خان کو نوکر شاہی کی ملی بھگت سے پنڈی میں گولی مروا دی گئی۔ غلام محمد کی سازشیں اس وقت دم توڑ گئیں جب اس سے بندوق کی نالی پر استعفیٰ لیاگیا۔ گورنر جنرل سکندر کو جرنیلوں نے تھپڑوں کے ساتھ لندن رخصت کیا۔ ایوب خان کو کتا کتا کہہ کر نکالا گیا۔ یحییٰ خان کے ساتھ تو جو ہوا سو ہوا‘ اس نے اس ملک کے ساتھ جو کیا اسے لکھتے ہوئے قلم خون کے آنسو روتا ہے۔ بھٹو کو اس کے چہیتے جرنیل کے ہاتھوں پھانسی ہوئی۔ بینظیر بیچ بازار قتل ہوئیں۔
اس اثناء میں قوم کا ’’حشر نشر‘‘ ہو گیا ہے۔ آدھے لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک وقت کی روٹی کھانا بھی دشوار ہو گیا ہے۔ اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ کسی گھر کا ماہانہ بجٹ بھی بیلنس نہیں ہوتا۔ با ایں ہمہ پپو ٹائپ وزیر ہمہ وقتی پراپیگنڈا میں مصروف ہیں۔ چارسُو خوشحالی ہے۔ ہر سمت ہریالی ہے۔ ملک ایشین ٹائیگر بن گیا ہے۔ اگر دال نہیں کھا سکتے تو مرغی کھائیں۔ روٹی میسر نہیں تو کیک پیسٹری کھائیں۔ میری انسٹیٹیوٹ محض ایک فرد نہیں بلکہ سوچ کا نام ہے۔ مدقوق سوچ‘ مفلوج سوچ‘ جو قوم کے ساتھ جونک کی طرح چمٹ گئی ہے‘ اسے دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ لوگ قطرہ قطرہ پگھل رہے ہیں۔ ریزہ ریزہ بکھر گئے ہیں۔

مزیدخبریں