مکرمی! میاں صاحب کی نااہلی پر بہت زیادہ خوشیاں منانے والوں کی مرضی غالباً اب یہی تھی کہ اس نااہلی کی آڑ میں میاں صاحب کی نقل و حرکت اور آزادی اظہار پر مکمل پابندی لگا دی جاتی اور میاں صاحب انہیں اسلام آباد کے ڈی چوک میں ڈانگ‘ ساتھ ایک گٹھڑی باندھے سر پکڑے افسوس و افسردہ حالت میں بیٹھے نظر آتے تو کئی سینوں میں ٹھنڈ پڑ جاتی مگر اس کے برعکس میاں صاحب نے جب اپنے گھر لاہور جانے کیلئے جی ٹی روڈ کا راستہ اختیار کیا تو بہت سی اہم جگہوں پر صفِ ماتم بچھ گئی‘ ِپٹ سیاپا شروع ہوگیا جتنے منہ اتنی باتیں ہونے لگیں‘ ان میں بعض باتیں بڑی اور منہ چھوٹے تھے اور بعض منہ بڑے بڑے اور باتیں چھوٹی تھیں۔ بڑی ریلی کو کسی نے ناکام قرار دیا تو کوئی کنٹینر کا طعنہ دیتا نظر آیا۔ قانون کا ایک ڈاکٹر یہ ٹیکہ لگاتا دکھائی دیا کہ میاں صاحب اپنی نااہلی کا جشن منا رہے ہیں ۔ ایک چودھری صاحب نے ہجوم کو رینٹل کرائوڈ کہہ کر دل کے پھپھولے پھوڑے۔ مخالفین یہ ماننے کو تیار ہی نہ تھے کہ میاں صاحب کے بھی چاہنے والے ہوسکتے ہیں میں سے کوئی حضرت ان کے نکاح پر حملہ آور نہیں ہوئے کہ اس نااہلی کی ابھی بھی کچھ بعید نہیں کیونکہ بین الاقوامی سطح کے ایک مزعم خود شیخ الاسلام بھی سرزمین پاک پر لینڈ کرچکے تھے عین ممکن ہے کہ موصوف اس نااہلی کو اپنی کسی کرامت یا جنتر منتر کا نتیجہ ہی قرار دے ڈالیں۔(محسن امین تارڑ ، گکھڑمنڈی)