خواتین کیلئے کوہ پیمائی آسان کام نہیں:عظمیٰ یوسف

لندن (بی بی سی رپورٹ )پاکستانی خاتون کوہ پیما عظمیٰ یوسف نے ملک کے شمالی علاقے گلگت بلتستان میں واقع 7027 میٹر بلند چوٹی سپانٹک کو جسے گولڈ پیک بھی کہا جاتا ہے، سر کر کے اس کامیابی کو پاکستانی خواتین کے نام کیا ہے۔گزشتہ چار برس میں خراب موسمی حالات کی بنا پر اس چوٹی کو کوئی سر نہیں کر سکا تھا ۔ عظمیٰ یوسف نے کہا کہ پاکستان کی ہر عورت مضبوط ہے اور دنیا کا مشکل سے مشکل کام کر سکتی ہے۔ پہاڑوں پر رفع حاجت کے لیے سہولیات نہیں ہوتیں۔ انھوں نے 31 دن کے سفر کے دوران مردوں کی ٹیم کےساتھ ان مشکلات حالات کا دلیری سے مقابلہ کیا۔ خواتین ہو کر کوہ پیمائی کرنا آسان کام نہیں۔ انسان بنیادی طور پر 'معاشرتی حیوان' ہے۔ بلند و بالا پہاڑوں پر پانی اور خوراک اور آکسیجن کی کمی طبیعت میں چڑچڑے پن کا سبب بنتی ہے۔ لیکن انہوں نے کامیابی حاصل کرنے کے جنون میں اپنی ذہنی حالت کو بھی خود پر طاری نہیں ہونے دیا۔ کوہ پیمائی کی خواہش ا±ن کے دل میں بچپن سے تھی۔ لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے آس پاس کے ماحول کے پیش نظر انہیں موقع نہیں مل سکا۔پاکستان میں خواتین کو آگے بڑھنے اور اپنی خواہشات پوری کرنے کی آج اجازت نہیں دی جاتی۔اس سے قبل عظمیٰ یوسف منگلنگ سر اور 'رش پیک' جیسی چوٹیاںمنفی 28 درجہ سینٹی گریڈ میں سر کر چکی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے کوہ پیمائی شروع کی اور رش پیک سر کرنا کا عزم کیا تو گاو¿ں کے لوگوں نے انہیں یہ کہہ کر دلبرداشتہ کیا کہ 'لوگ تو گرمی کے موسم میں خطرناک چوٹیاں سر نہیں کر سکتے، آپ عورت ہو کر سردی میں کیسے یہ کام کریں گی؟ میں نے ایسے ہی لوگوں کی حوصلہ شکنی کو اپنے لیے چیلنج سمجھا اور کامیابی نے میرے حوصلے مزید بلند کر دیے ہیں۔ میرا اگلا ٹارگٹ 8000 میٹر کی بلندی سر کرنا ہے۔کوہ پیما مرد یا عورت نہیں ہوتا بس 'کلائمبر' ہوتا ہے۔ اس کے لیے جسمانی ہی نہیں دماغی طور پر مضبوط ہونا بھی ضروری ہے۔ پہاڑوں پر اکثر ہوا کا دباو¿ بہت تیز ہوتا ہے۔ ایسے میں قدم جما کر رکھنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ سردی جسم کو منجمد کر دیتی ہے۔ آکسیجن کی کمی سانس لینا مشکل بنا دیتی ہے۔ لہذا کوہ پیمائی کی مہم کے لیے حوصلہ مندی اور پرعزم رہنا ٰضروری ہے۔عظمیٰ یوسف کے ہمراہ واجد اللہ، اصغر حسین اور یاسین بھی کوہ پیما ٹیم کا حصہ تھے جنہوں نے یہ چوٹی سر کی ہے۔عظمیٰ یوسف نے کہا کہ سپانٹک پر انہوں نے دو گھنٹے گزارے۔اترائی بہت مشکل تھی، طوفان کی وجہ سے نظر آنا بند ہو گیا اور جی پی ایس کے سگنلز بھی غائب ہو گئے۔ اس سے قبل بھی طوفان میں کئی کیمپ برف کے نیچے دب چکے ہیں۔ برف پگھل رہی تھی۔ راستے تلاش کرنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اکثر پورا پورا جسم برف میں گم ہو جاتا۔جمہوریہ چیک اور جاپان کی ٹیمیں موسم کی خرابی کے باعث چوٹی کو سر کیے بغیر ہی واپس لوٹ گئیں۔آخری مرتبہ اسے 2012 میں ایک بارہ رکنی پاکستانی اور چینی کوہ پیماو¿ں کی ٹیم نے سر کیا تھا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...