’’یومِ آزادی پر۔۔ مولانا کی برہمی۔۔! ‘‘

سب سے پہلے پوری قوم کو پاکستان کا 71 واں یوم جشن آزادی بھرپور اور شایان شان منانے پر مبارکباد ، یہ ملک اللہ تعالیٰ نے بڑی قربانیوں کے بعد عظیم قائد اعظم کی زیر قیادت ہمیں تحفے میں دیاہے، ہماری دعا ہے کہ ہمارا یہ پیارا ملک تاقیامت اسلام کا جھنڈا بلند کیئے امن اور خوش حالی کا گہوارا بنا رہے ، اس ملک میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے انسانی حقوق ہمیشہ مساوی رہیں ، ملک میں آباد اقلیتوں کا مذہب خواہ کوئی ہو لیکن سب پاکستانی بن کر ملک کی تر قی وخوشحالی کے لیئے آبیاری کریں، پاک فوج کی قربانیوں کی بدولت آج یہ ملک امن اور سکون سے اپنی ترقی کی جانب گامزن ہے، بفضل اللہ پاک نو مولود اسمبلی کے نو منتخب ارکان نے حلف اٹھا لیا سب کچھ بحسن خوبی احسن طریقے سے انجام پایا دیکھ کر خوشی ہوئی کہ سب کے چہروں پر مسکراہٹ تھی کئی نئے چہرئے نظر آئے اور کئی پرانے چہرئے منظر سے غائب تھے ، کچھ ویسے ہار گئے اور کچھ کا ہار جانا ہی ملک کے عظیم تر مفاد میں رہا، ان میں شامل کئی افراد وہ ہیں جنہوں نے آج تک اس ملک کو دیا کچھ نہیں سوائے لینے کھانے اور جمع کرنے کے اسمبلی میں حلف نہ اٹھانے کا عزم و ا یکاخود ہی ایک ایک کر کے ٹوٹ گیا،افسوس ہوتا ہے جب بعض لوگ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر ملک ہی میں رہتے بستے کھاتے پیتے پھلتے پھولتے اس کو برا بھلا کہنا شروع کر دیتے ہیں، ہمارئے ملک میں عجیب روایت چل پڑی ہے کوئی بھی شخص منہ اُٹھائے جب چاہے جہاں چاہے ملک کے مقدس اور عوام کے ہر دلعزیز قابلِ احترام اداروں کو ، اُول فول بکنا شروع کر دیتا ہے، اس قسم کے کردار ادا کرنے والوں کا اس پر طُر ہ یہ ہے کہ ان کا احترام ہر جگہ پر ملحوظ خاطر رکھا جائے ، یہ بھی عجیب روایت ہے کہ اس قسم کے شعبدہ بازوں اور کار یگروں کا بعض مفاد پرست صحافی، تجزیہ نگارحضرات بھی احترام کرتے نظر آتے ہیں، ایسا وہ کیوں کرتے ہیں اس کا جو اب وہی دے سکتے ہیں، ہمارئے نزدیک قریبی رشتوں سے ہٹ کر قابل احترام صرف وہ شخص ہے جس کا عمل اور کردار پاکیزہ ہو، باقی لوگوں کے لیئے سوال جس زبان میں جواب بھی اسی زبان میں، ہمارا انداز آج تک تو یہی رہا ہے ، ا نسانیت کو اہمیت دو اور حق اور سچ کا ساتھ دو، عزت ذ لت اللہ ربُ العزت کے ہاتھ میں ہے، گذشتہ دنوں ملک کی بعض سیاسی جماعتوں نے ملک میں ہونے والے انتخابات پر مختلف نوعیت کے سوالات اٹھاتے ہوئے ملکر اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کیا جس میں قابل ذکر جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ ( ن ) اور پیپلز پارٹی کے ساتھ کہہ لیں یا ان کا ہاتھ پکڑئے کہہ لیں متحدہ مجلس عمل کے سرکردہ رہنما بھی شامل تھے، ان میں کچھ افراد وہ بھی تھے جو حالیہ انتخابات میں اپنی عبرتناک شکست پر کافی پیج وتاب کھائے ہوئے ہیں، یوں تو بظاہر یہ مختلف جماعتوں کا جم گھٹا الیکشن کمیشن کے سامنے بقول انکے ہونے والی دھاندلیوں کے خلاف سوالات لیئے کھڑا تھا لیکن ہمارئے نزدیک یہ ایسا کچھ نہ تھا جویہ پیش کر رہے تھے، ان میں شامل ہر جماعت کے پسِ پردہ معاملات اور مسائل مختلف تھے ان میں سے انتخابات کے حوالے سے شکایات لیئے صرف دو چار لوگ ہی تھے، سب سے پہلے تو زکر ہم ان کا کر لیتے ہیں جن کے اس احتجاج کی آڑ میں معاملات کچھ اور تھے، ان میں خاص کر دو سیاسی جماعتیں قابلِ ذکر ہیں، سب سے پہلے مسلم لیگ نواز ان کا اصل معاملہ انکے پیٹ کے درد کا ہے جس میں ہنوز افاقہ دستیاب نہیں اس جماعت کے بعض درباری رہنماوں کو ا بھی تک نواز شریف نامی بخار چڑھا ہوا ہے ، یہ دراصل اس ہونے والے احتجاج میں شامل ہو کر اس بخار کا درماںچاہتے تھے اور اب بھی یہی چاہتے ہیں، شہباز شریف کایہ کہنا کہ N.R.O. نہ کوئی دینا چاہتا ہے، اور نہ کوئی لینا چاہتا ہے، اصل بات اسی دینے اور لینے میں چھپی ہے دراصل قدرت کی طرف سے میاں شہباز کے منہ سے N.R.O. کی بات نکل ہی آئی، ہمارئے نزدیک بات حقیقت میں N.R.O.ہی کی ہے، جو فی الحال میاں برادران کو ملتا نظر نہیں آ رہا، بلکہ بات اب پناما سے آگے کو چلتی نظر آرہی ہے، جس میں انہیں کنواں اور کھائی سب ہی کچھ نظر آ رہا ہے، اور باقی پیپلز پارٹی کی ہونے والے اس ا حتجاج میں شمولیت اپنے مقاصد کے لیئے تھی جس میں آنے والے وقتوں میں اس کی قیادت گھری نظر آرہی ہے ، جس میں آصف علی زرداری اور انکی ہمشیرہ فریال تالپو ر ا ور انکے دیگر اہم ساتھی سخت احتساب کے عمل سے گزرنے والے ہیں، اور اگرمعاملات کو اپنے حق میں ثابت نہ کر پائیں توعین ممکن ہے سزا کے حق دار ٹھرا دیئے جائیں، جس کا پارٹی کی اعلی قیادت کو بہت خوب ادراک ہے ، احتجاج میں شامل ہو کر وہ اپنے تئیں کچھ لو کچھ دو کے تحت اپنے اوپر ہاتھ ہلکا رکھوانے کی کوششوں میں لگے ہیں، اب رہے باقی دو چار افراد اصل میں یہی وہ افراد تھے جنہیں حقیقی معنوں میں الیکشن کمیشن ہی سے شکایت تھی جسمیں محمود خان اچکزئی، اسفند یار ولی کے لوگ اور سب سے قابل زکر، قابل توجہ، اور قابل تنقید مولانا فضل الرحمان تھے جو انتخابات میں P.T.I.کے ہاتھوں شکست پر الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کے دوران

اپنی تقریر میں سخت انداز میں گرجتے برستے رہے، مولانا کا کہنا تھا کہ یہ اگست کا مہینہ ہے اور وہ 14 ا گست کو یوم آزادی کے طور پر نہیں منائیں گے بلکہ وہ اسے جدوجہد آزادی کے طور پر منائیں گے، ہونے والے اس احتجاج میں انہوں نے پاک افوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ پاکستان کی اور اس کے عوام کی فوج رہنا چاہتے ہیں تو پھر یہ طور طریقے وطیرئے تبدیل کرنے ہونگے،اور پھر اپنی باقی ماندہ تقریر میں پاک افواج کو توہین آمیز جملوں کے ساتھ چیلج کرتے رہے ، مولانا جس انداز میں ملک اور افواج پاکستان پر شعلے برسا رہے تھے اس انداز تخاطب پر انہوں نے قوم کے سامنے اپنا آپ گرا کر رکھ دیا ، مولانا کی اس نفرت انگیز تقریر کے بعد ملک کے عوام میں خاصہ غصہ پایا جاتا ہے ، سوشل میڈیا پر لوگ موصوف کی طرح طرح سے تواضع کرتے نظر آتے ہیں، انہیں یہ بات اچھے طریقے سے اب ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ جب پاکستان کی انکے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تو ان کی بھی ملک کی عوام کے نزدیک کوئی اوقات نہیں، ہم مولانا صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ کو یہ ملک پسند نہیں تو یہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹیں اور بھارت کا رخ کریں کیونکہ آ پکی تقریر سے بھارت کی بو باس آرہی تھی، انتخابا ت میں اپنی ہار کو الیکشن کمیشن یا پاک فوج میں نہیں بلکہ اپنے کردار میں ڈھونڈیں۔ اپنے حلقے کے عوام سے جا کر اپنے متعلق پوچھیں۔۔ آپ کو آپ کی ذ لت آمیز شکست کا جواب مل جائے گا۔۔!

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...