عمران کے نامزد گورنروں کی ’’صوبے داری‘‘

Aug 16, 2018

نصرت جاوید

تحریک انصاف کے نامزد کردہ گورنروں نے ابھی اپنے عہدوں کا حلف بھی نہیں اٹھایا ہے مگر کسی ملک کو فتح کرنے والے سلاطین کے لگائے صوبے داروں کی طرح ڈنڈا اٹھائے ہر شے کو ٹھیک کرنے کی تڑیاں لگانا شروع ہوگئے ہیں۔کاش ان کا نام دینے سے قبل عمران خان صاحب اپنے قانونی مشیر جناب ڈاکٹر ظہیر الدین بابر اعوان صاحب سے استدعا کرتے کہ وہ مجوزہ افراد کے لئے خصوصی سیشن کا اہتمام کریں جہاں چودھری سرور اور عمران اسماعیل کو مناسب انداز میں سمجھا دیاجاتا کہ تحریک انصاف کی حکومت کو 1973میں پاس ہوئے آئین کے تحت ہی انقلابی فرائض سرانجام دینا ہیں۔ اس آئین کے تحت گورنر کا عہدہ فقط نمائشی ہے اسے مغل دور کے صوبے داروں جیسے اختیارات حاصل نہیں۔ ان کے پاس سول سروس کے افسروں پر اس کمانڈ کی گنجائش بھی موجود نہیں ہے جو برطانوی دور کے وائسرائے کے ماتحت کام کرنے والے صوبائی گورنروں کو عطاکی جاتی تھی۔چودھری سرور کو اگرچہ ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کی اتالیقی کی ضرورت نہیں ہونا چاہئے تھی۔ موصوف برطانوی پارلیمان کے رکن بھی رہے ہیں۔ سیاست انہوں نے وہاں کی لیبر پارٹی کے لئے کام کرتے ہوئے سیکھی تھی۔ شہباز صاحب نے بھی انہیں گورنر پنجاب لگایا تھا۔ وہاں چند روز قیام کے دوران مگر انہوں نے جان لیا کہ محل نما گورنر ہائوس میں بیٹھے شخص کے پلے کوئی حکومتی اختیار نہیں ہوتا یہ دریافت کرنے کے بعد ہی وہ استعفیٰ دے کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ اس جماعت نے انہیں سینیٹر کے عہدے کے لئے نامزد کیا۔ پنجاب اسمبلی اس عہدے کے انتخاب کا الیکٹورل کالج تھی اور وہاں تحریک انصاف کے پاس کوئی ایک سینیٹر منتخب کروانے کے لئے ضروری سمجھے اراکین موجود نہیں تھے۔چودھری صاحب نے مگر اپنی پرکشش شخصیت اور فیاض رویے کی بنیاد پر سینیٹ کی نشست حاصل کرلی۔ اُمید تھی کہ 25 جولائی 2018کے انتخابات کی بدولت وفاقی حکومت بنانے کے قابل ہوئی تحریک انصاف انہیں وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز کرکے برطانیہ اور یورپی ممالک میں حکومتِ پاکستان کے لئے جاندار حامیوں کی تلاش شروع کردے گی۔ چودھری صاحب کومگر ’’آنے والی تھاں‘‘ واپس بھیج دیا گیا ہے۔آدمی مگر ڈھیٹ ہیں۔ اپنی واضح طورپر نظر آتی تنزلی پر پریشان نہیں ہوئے۔ گماں کئے بیٹھے ہیں کہ گورنری سنبھالتے ہی تخت لہور پر 1960کی دہائی میں بیٹھے ملک امیر محمد خان نواب آف کالا باغ جیسا نظر آنا شروع ہوجائیں گے۔ ان جیسی دہشت طاری نہ کر پائے تو کم از کم اپنی آنیوں جانیوں سے 1972کے ’’شیر پنجاب‘‘ ملک غلام مصطفیٰ کھر کا دوسرا جنم ثابت ہوں گے۔میری اگرچہ ربّ کریم سے فریاد ہے کہ وہ انہیں ان دونوں کے ایام زوال سے محفوظ رکھے۔ عمران اسماعیل کی جانب سے بطور گورنر سندھ نامزدگی کے بعد اپنائی تھوڑی شوخی اور مستانہ پن اگرچہ نظرانداز کیا جاسکتا ہے۔ ایوان ہائے اقتدار میں وہ نووارد ہوں گے۔ سلاطین والی بردباری اختیار کرنے کے لئے انہیں وقت درکار ہے۔اپنی نامزدگی کا اعلان ہونے کے بعد مگر انہیں فلمی انداز میں تلوار لہراتے ہوئے ’’ظالمو عمران اسماعیل آرہا ہے‘‘ جیسی بڑھک لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ وطنِ عزیز میں ’’تبدیلی‘‘ لانے کے لئے سیاست میں آئے عمران خان صاحب برسوں سے یہ دعویٰ کرتے چلے آئے ہیں وہ اقتدار میں آئے تو صوبوں میں بنائے گورنر ہائوسز کو بل ڈوزر چلاتے ہوئے مسمارکردیں گے۔ اس عہدے کے لئے مختص ہوئے محل نما گھر سامراجی دور کی نشانیاں ہیں۔ برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہمیں ان کو مٹادینا چاہیے تھا۔عمران اسماعیل کراچی پہنچ کر بلڈوزر استعمال کرنے کے وعدے پر قائم رہے۔ ان کے بلڈوزر کا متوقع نشانہ مگر گورنر ہائوس نہیں ہوگا کیونکہ بقول ان کے وہ ایک ’’تاریخی‘‘ عمارت ہے۔ ایک دیوار البتہ گرانا ضروری ہے جو آصف علی زرداری نے بلاول ہائوس کی حفاظت کے نام پر اس کے گرد ایک حصار کی صورت کھڑی کررکھی ہے۔ بلاول ہائوس کے گرد اٹھائی دیوار کو گرانے کا اعلان کرتے ہوئے عمران اسماعیل کو یاد نہ رہا کہ شہر کراچی میں تجاوزات سے نجات شہری حکومت کی ذمہ داری ہے۔ وسیم اختر ان دنوں کراچی کے منتخب میئر ہیں۔تعلق ان کا ایم کیو ایم (پاکستان)نامی جماعت سے ہے اور اس جماعت نے عمران خان صاحب کو وزارتِ عظمیٰ کے لئے ووٹ دینے کے بعد ان کی حکومت سے تعاون کا وعدہ کررکھا ہے۔ عمران اسماعیل اگر بلاول ہائوس کراچی کے گرد اٹھائی حفاظتی دیوار کو واقعتاً غیر قانونی سمجھتے ہیں تو اتحادی جماعت کے لگائے میئر سے رجوع کریں۔ وہ بھی خود کو بے بس تصور کریں تو میئر کراچی اور گورنر سندھ باہم مل کر عدالت سے رجوع کرکے ’’مفادِ عامہ‘‘ میں اس دیوار کے انہدام کو یقینی بناسکتے ہیں۔ اس ضمن میں سلطان راہی سٹائل بڑھک بازی کی کوئی ضرورت نہیں تھی جس نے سندھ پیپلز پارٹی کے رہ نمائوں کو جوابی بیان بازی پر مجبور کردیا۔بلاول ہائوس کراچی کے گرد حفاظت کے نام پر اٹھائی دیوار کو مسمار کرنے کی خواہش کا اظہار کرنے سے قبل عمران اسماعیل کو یہ حقیقت بھی ذہن میں رکھنا چاہیے تھی کہ نومنتخب قومی اسمبلی کے اراکین کی حلف برداری کے دن ان کے لیڈر نے اپنی نشست سے اُٹھ کر آصف علی زرداری کے پاس جاکر ان سے ہاتھ ملایا اور ’’سب سے بڑی بیماری‘‘ کے ساتھ مسکراتے ہوئے تصویر بھی کھچوائی۔ بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ان کا مصافحہ تو بہت پرجوش تھا۔آصف علی زرداری اور ان کے فرزند کے ساتھ عمران خان صاحب منافقانہ مسکراہٹوں سے کام نہیں چلا رہے وہ خوب جانتے ہیں کہ قومی اسمبلی میں ان کی اکثریت کافی کمزور ہے۔ چھوٹی جماعتوں کے آٹھ سے دس اراکین کو کسی بھی وقت دائیں بائیں کرتے ہوئے ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جاسکتی ہے۔اپنی حکومت کو استحکام فراہم کرنے کے لئے تحریک انصاف کو لہذا پیپلز پارٹی کی خاموش مگر ٹھوس حمایت درکار ہے۔ آصف علی زرداری کھلے دل کے ساتھ تحریک انصاف کو وہ حمایت فراہم کررہے ہیں۔ شہباز شریف سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس فاصلے کی وجہ سے اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے دوران پارلیمان کے اندر اور اس کے باہر ہنگامے برپا نہ کرپائیں۔حلف برداری کی تقریب نہ صرف خیروعافیت بلکہ بہت خوش گوار پیغامات دیتے ہوے ختم ہوئی۔آنے والے کئی مہینوں تک تحریک انصاف کو آصف علی زرداری سے ایسے ہی روئیے کی توقع اور ضرورت ہے۔ گورنر سندھ کی حیثیت میں ہر دوسرے دن مگر عمران اسماعیل پیپلز پارٹی کو سلطان راہی سٹائل بڑھکوں کے ساتھ للکارتے اور دھمکاتے رہے تو ’’روزانہ بے عزت‘‘ ہوتے کارکنوں کی وجہ سے آصف علی زداری کے لئے تحریک انصاف کی حکومت کے لئے آسانیاں بہم پہنچاتے رہنا ناممکن ہوجائے گا۔ عمران اسماعیل لہذا اپنی ہی جماعت اور اس کی قیادت پر رحم کریں۔ جو نمائشی عہدہ انہیں عطا ہوا ہے اس سے لطف اندوز ہونا سیکھیں۔
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں