2013ءکے الیکشن کے بعد سانحہ ماڈل ٹاﺅن ایک ایسا واقعہ ہے جسے بھلایا نہیں جاسکتا۔ لگتا ہے کہ تیسری بار اقتدار میں آنے اور حکومت کے بیشتر اداروں پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد ”مملکت شریفیہ“ کا خواب حقیقت بنتا نظر آیا۔ اللہ کرے یہ اندازہ غلط ہو لیکن کوئی اور وجہ بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ ماڈل ٹاﺅن کے شہیدوں کے خون کا شور اپنے عروج پہ تھا کہ تحریک انصاف جو پہلے ہی دھاندلی پر احتجاج کر رہی تھی اور جس کا کہنا تھا کہ لاہور کے صرف چار حلقے کھول دیئے جائیں اگر دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو ہم 2013ءکے الیکشن کے نتائج تسلیم کر لیں گے لیکن حکمران ٹس سے مس نہ ہوئے مجبوراً 14 اگست 2014ءکو عمران خان نے اپنی عملی جدوجہد کا آغاز کیا لاہور سے اسلام آباد تک کے اس مارچ نے جہاں عوامی پذیرائی دیکھی وہاں گوجرانوالہ میں ورکرز کی جانب سے مزاحمت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ علامہ طاہر القادری کا مارچ بھی 14 اگست کو ہی شروع ہوا وہ ایک علیحدہ احتجاج تھا جو وہ ماڈل ٹاﺅن کے شہیدوں اور زخمیوں کے لیے کر رہے تھے دونوں جلوس آگے پیچھے اسلام آباد پہنچے وہاں بھی سرکار کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا لیکن عوام کا دباﺅ زیادہ تھا اس لیے دونوں جلوس D چوک تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور دھرنا دے دیا۔ حکومت کے کرتا دھرتا مذاکرات کے ذریعے سے مطالبات تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے مسلم لیگ ن کے علاوہ تمام جماعتیں جو 2013ءکو RO کا الیکشن کہتی تھی اور دھاندلی کا الزام لگاتی رہی تھیں سب کی سب ن لیگ کی حمایت میں کھڑی ہوگئیں۔ اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے جہاں 126 دن تک بڑی مستقل مزاجی سے عمران خان نے اپنا دھرنا جاری رکھا وہاں پارلیمنٹ کی بے حسی سامنے آگئی مجبوراً سپریم کورٹ کو مداخلت کرنا پڑی۔ پہلے تو صرف لاہور کے چار حلقوں کے کھولنے کی بات ہو رہی تھی لیکن اس عرصے میں ”پانامہ لیکس“ نے دنیا میں تہلکہ مچا دیا شریف خاندان بڑے پیمانے پر کرپشن کے الزامات تحریک انصاف کے مطالبے میں سرفہرست آگئے۔ بعد از خرابی بسیار سپریم کورٹ کے فل بنچ نے سماعت شروع کی اور اس سارے مسئلے کی مکمل تحقیقات اور JIT کی روشنی میں یہ فیصلہ ہوا کہ وزیراعظم کو نااہل قرار دےکر نیب کو ھکم دیا کہ وہ پانامہ میں درج سنگین جرائم کی تحقیقات کرکے ریفرنس دائر کرے۔ 6/7 مہینے کی روزمرہ کی بنیاد پر چلنے والے احتساب عدالت میں دو مقدمات کا فیصلہ سامنے آیا جسکے نتیجے میں وزیراعظم، ان کی بیٹی اور داماد آج کل اڈیالہ جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔ مریم نواز نے JIT کے باہر پریس کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ہم حکمران خاندان ہیں نااہلی کے بعد وزیراعظم نے جاتی امراءمیں اپنی پارٹی کے سینئر لوگوں سے کہا تھا کہ ”اگر میرے پاس اثاثے ہیں، دولت ہے تو تمہیں کیا ہے بھائی! “ اس پس منظر میں الیکشن 2018ءکا نتیجہ یہ نہ نکلتا تو کیا نکلتا؟ سب جانتے ہیں کہ 6 بجے رات سے گیارہ بجے رات تک آنے والے نتائج یہ بتا رہے تھے کہ PTI جیت رہی ہے۔ فوج کی سخت نگرانی کے باعث بیلٹ بکسوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں تھی تب دھاندلی کے ماہرین نے پہلے RTS کو بند کروایا۔ پھر پولنگ ایجنٹوں کو واپس بلایا اس طرح فارم 42 کی نقول فراہم نہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن، نادرا اور R.O وغیرہ پر کس کا اثر تھا وہ تو حکمرانوں کے زیر اثر تھے PTI کا اس سارے معاملے سے کیا تعلق ہے؟ اس پس منظر میں PTI عام انتخاب جیت گئی ہے اور امید واثق ہے کہ پاکستان تحریک انصاف وفاق کے علاوہ دیگر تین صوبوں میں اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہو جائےگی۔ پاکستان کے عوام نے عمران خان سے اپنی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور ماضی کے جبر و استبداد سے نجات دلانے کیلئے ہی عوام نے عمران خان پر اپنے بھرپور اعتماد کا اظہا رکیا ہے۔ عمران خان نے اپنی سیاست کا محور تبدیلی کو قرار دیا ہوا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عوام کے دلوں کی دھڑکنیں بڑھتی جا رہی ہیں کہ ان کی زندگی میں انقلاب آنےوالا ہے کیوں کہ تحریک انصاف نے پاکستانی عوام سے بھرپور وعدہ کر رکھا ہے کہ ملک میں انصاف کا دور دورہ ہوگا۔ صحت عامہ کے معاملات و مسائل بڑے پیمانے پر حل کئے جائینگے نئے ہسپتال قائم ہونگے، تعلیمی اداروں کو فعال کیا جائیگا، مہنگائی کا خاتمہ ہوگا، کرپشن اور لوٹ مار کا دور ختم ہو جائےگا،بے روزگاروں کو روزگار فراہم کیا جائیگا، غریب بے گھر خاندانوں کو گھر فراہم کئے جائینگے۔ گو یہ تمام معاملات جنہیں گزشتہ ادوار میں پس پشت ڈال کر محض اپنی اور اپنے خاندانوں کی خوشحالی در خوشحالی پر زور دیئے رکھا گیا تھا مختصر مدت میں حل کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن ہرگز نہیں ہے۔ جناب عمران خان نے اپنی تقریر میں جو انہوں نے الیکشن میں کامیابی کے بعد عوام سے کی تھی اس میں انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ احتساب کا عمل وہ اپنی ہی ذات سے شروع کرینگے۔ اب آنےوالے دنوں میں دیکھنا ہے کہ وہ سیاست کا نقاب اوڑھ کر عوام کی جیبوں پر اور ملکی خزانے پر ڈاکہ مارنے والوں کے ساتھ کیسا برتاﺅ کرینگے۔ کیا وہ ان سے لوٹی ہوئی دولت ملکی خزانے میں واپس لاسکیں گے یا پھر کسی این آر او کے ذریعے یا دیگر بہت سے ممالک کے دباﺅ پر جو ہمیشہ ان لٹیروں کی مدد کیلئے ہمہ تن پرجوش نظر آتے رہے ہیں احتساب کے عمل میں حائل ہوتے آئے ہیں۔ اس طرح ختم کر دینگے جیساکہ ماضی میں ہوتا آیا ہے۔عوام بھولے ضرور ہیں بے وقوف نہیں۔ وہ جناب عمران خان کی حکومت کو ہر زاویے سے دیکھیں گے۔ عوام ان تبدیلیوں کو ضرور نظر میں رکھیں گے جن کےلئے ان سے وعدہ کیا گیا ہے۔ وہ اس نئے پاکستان کے منتظر ہونگے جس کا خواب انہیں دکھایا گیا ہے۔ وہ اس پاکستان کو دیکھنا چاہیں گے جس کی بنیاد میں لاکھوں بے گناہ مسلمانوں کا خون شامل ہے اور قائداعظم نے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست کا جو تصور کیا تھا یا اب عمران خان نبی کریم ﷺ کی مدینہ کی ریاست کی بات کرتے ہیں۔! اسکی کیا شکل سامنے آتی ہے۔
جہدِ مسلسل کا انعام، وزیراعظم
Aug 16, 2018