پاکستان کی پارلیمانی تاریخ، سندھ کے ریکارڈ

Aug 16, 2018

خصوصی رپورٹ…الطاف احمد خان مجاہد 
پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں زیادہ ریکارڈ سندھ نے بنائے 37ء کی پہلی سندھ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر میں جیٹھی مہاہیملانی کو چنا گیا تھا، 2002ء میں راحیلہ ٹوانہ، 2008ء اور 2013ء میں سیدہ شہلا رضا اور اب ریحانہ لغاری نے یہ منصب سنبھالا ہے 
پہلی خاتون گورنر بھی سندھ میں بیگم رعنا لیاقت علی خان مقرر ہوئیں 
قومی اسمبلی کی پہلی ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر منزا شرف عباسی  اور پہلی اسپیکر فہمیدہ مرزا بھی سندھ سے تعلق رکھتی تھیں 
پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم کا اعزاز بھی سندھ کی محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی ملا تھا 
الیکشن 2018ء میں ملک بھر سے قومی اسمبلی میں 8 اور صوبائی اسمبلیوں  میں بھی 8 خواتین براہِ راست الیکشن جیت کر پہنچی ہیں ان میں سے قومی اسمبلی کی چار اور صوبائی اسمبلیوں کی 2 ارکان کا تعلق ارض مہران سے ہے 
…………………
ارضِ مہران کو خواتین کے اعتبار سے کئی اعزازات حاصل ہیں مثلاً تقسیم ہند سے قبل 1937ء میں پہلی سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر مس جیٹھی مہاہیملانی کو چنا گیا تھا پھر 2005ء میں راحیلہ ٹوانہ کو یہی منصب مسلم لیگ ق کی طرف سے ملا اور 2008ء اور 2013ء میں پی پی نے شہلا رضا کو اسی عہدے کیلئے نامزد کیا۔ 19ء میں سندھ کا گورنر محترمہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کو پی پی کی وفاقی حکومت نے مقرر کیا ا ور اسی دہائی  میں پی پی نے بیگم اشرف عباسی کو قومی اسمبلی کا ڈپٹی اسپیکر اور اگلے عشرے میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان بلکہ مسلم دنیا کی پہلی وزیراعظم منتخب ہوئیں اور 2008ء میں پیپلز پارٹی نے فہمیدہ مرزا کو قومی اسمبلی کی اسپیکر منتخب کرایا۔ 
الیکشن 2018ء میں ملک بھر سے 8 خواتین قومی اور 8 ہی صوبائی اسمبلیوں کا انتخاب جنرل نشستوں پر جیت کر ایوانوں میں پہنچی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر موروثی سیاست کے بل بوتے پر کامیاب ہوئی ہیں۔ سندھ سے جی ڈی اے کے ٹکٹ پر بدین سے فہمیدہ مرزا، پی پی کے ٹکٹ پر سانگھر سے شازیہ عطا مری، خیرپور سے ڈاکٹر نفسیہ شاہ اور ٹھٹھہ شمس النساء میمن نے الیکشن کے معرکے میں مخالف مرد امیدواروں کو ہرایا ہے۔ سندھ اسمبلی کے ایوان میں آصف زرداری کی دونوں بہنیں فریال تالپور اور عذرا فضل پیچوہو بالترتیب نواب شاہ اور لاڑکانہ سے الیکشن جیتی ہیں اور دونوں نے ممتاز بھٹو کے بیٹے امیر بخش بھٹو  اور جی ڈی اے کے باغ علی شاہ کو ناکامی سے ہمکنار کیا ہے اسی طرح بلوچستان سے قومی اسمبلی کا زبیدہ جلال الیکشن جیتی ہیں البتہ خیبر پی کے سے کوئی خاتون صوبائی یا قومی اسمبلی کا الیکشن نہیںجیت سکیں ہارنے والوں  میں عائشہ گلالئی بھی شامل ہیں جو سندھ کے ضلع سجاول سے بھی امیدوار تھیں لیکن اپنے صوبے کی طرح ارض مہران سے بھی ہار گئیں۔ پنجاب میں این اے 77 نارووال سے مہناز عزیز ، جھنگ سے غلام بی بی بھروانہ، ڈیرہ غازی خان سے زرتاج گل نے الیکشن جیتا۔ اول الذکر  سابق وزیر دانیال عزیز کی اہلیہ ہیں جنھوں نے شوہر کی عدالت سے نااہلی کے بعد کامیابی حاصل کی، جھنگ کی غلام بی بی نے مولانا احمد لدھیانوی کو ہرایا ان کے دادا مہر غلام حیدر بھروانہ 70ء میں جمعیت علمائے پاکستان کے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر پی پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ غلام بی بی بھی 2002ء اور 2008ء کے الیکشن پی پی 2013ء میں ن لیگ اور حالیہ الیکشن تحریک انصاف کے ٹکٹ پر جیتی ہیں۔ پنجاب ا سمبلی میں ملتان سے نغمہ مشتاق لانگ، منڈی بہاء الدین سے حمیدہ میاں، چنیوٹ سے سلیم بی بی، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے آشفہ ریاض فتیانہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ سے ہی سونیا مخدوم ، اوکاڑہ میمنٹ محسن المعروف جگنو محسن کامیاب ہوئی ہیں۔ آشفہ ریاض نے نازیہ راحیل نامی خاتون امیدوار کو ہی ناکامی سے ہمکنار کیا۔ 
الیکشن 2018ء میں صوبائی ا ور قومی اسمبلی کے مختلف حلقوں  سے 1691 خواتین امیدوار تھیں ان میں سے 105 کے پاس قومی اسمبلی کے لئے پارٹی سپورٹ تھی جبکہ 66 نے آزاد حیثیت میں مخالفین کو چیلنج کیا۔ 2008ء کے مقابلے میں خواتین امیدواروں کی تعداد حوصلہ افزا تھی کہ اس وقت صرف 72 عورتیں  اسمبلی میں پہنچنے کی خواہش مند تھیں البتہ 2013ء میں یہ تعداد 209 تھی ۔ سندھ سے اس الیکشن میں پی پی کے ٹکٹ پر کراچی سے امیدوار شہلا رضا ہار گئیں  اور مقابل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تھے۔ سندھ کے ضلع جیکب آباد کی تحصیل ٹھل سے آزاد امیدوار فیروزہ لاشاری اور لاڑکانہ سے سابق سینئر صوبائی وزیر نثار کھوڑو کی صاحبزادی ندا کھوڑو کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہانے  والی خواتین امیدواروں میں متحد قومی موومنٹ کی کشور زہرہ، پی ٹی آئی کی ناز بلوچ، پی پی کی شاہد رحمانی، انجم نذیر، گل رعنا، رابعہ عباسی ، اے این پی کی شازیہ مروت، ثمینہ ہما، صوفیہ یعقوب، معصومہ ترین، صاعقہ نور نکی، پروین بشیر اور زرینہ شاہین بھی شامل ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی نے فوزیہ قصوری کو ٹکٹ دیا لیکن یہ سب جی ڈی اے کی ہما بانو، تحریک لبیک کی افشاں شاہد، فاطمہ اصغر اور طاہرہ کوثر کی طرح ناکام رہیں۔ 
سندھ میں اپر دیر یا قبائلی علاقوں کی طرح کا کوئی حلقہ نہیں جہا ں خواتین ووٹ نہ ڈال سکتی ہوں لیکن اس بار خواتین امیدوار نہ صرف زیادہ تھیں بلکہ شہروں اور د یہات میں ٹرن آئوٹ بھی زیادہ رہا۔ اپر دیر کی حمیدہ شاہد کی طرح سندھ کے ضلع تھر میں سنیتا پرمار اور ضلع جیکب آباد کے علاقے ٹھل میں فیروزہ لاشاری نے بھی روایات کو چیلنج کیا۔ پسماندہ ہندو اقلیت میگھواڑ برادری کی سنیتا صوبائی اسمبلی کی جنرل نشستوں کے لئے پہلی ہندو خاتون امیدوار ہیں ان کے کاغذات نامزدگی کی فیس بھی ان کے قبیلے نے جمع کرائی گوکہ وہ نہیں جیت سکیں لیکن ایک تحریک ضرور برپا کی ہے، ا یسا ہی فیروزہ لاشاری نے کیا وہ پیپلز پارٹی شہید بھٹو کی امیدوار تھیں حالانکہ ان کی پارٹی کی سربراہ غنویٰ بھٹو نے الیکشن نہیں لڑا لیکن سرداروں ا ور وڈیروں کے سماج  میں  اس کا میدان میں آنا ہی بڑا کمال تھا اس بار فاٹا  سے بھی علی بیگم کرتی نے انتخاب لڑا لیکن نہ جیت سکیں۔ 
فتح و شکست کے نتائج سے ہٹ کر کہ جیت کسی ایک کا ہی مقدر بنتی ہے سندھ کے انتخابی رزلٹ خواتین کے حوالے سے حوصلہ افزا ہیں اور جنرل نشستوں پر کامیاب قومی اسمبلی کی 8 خواتین میں  سے چار کا تعلق ارض مہران سے ہے اسی طرح صوبائی اسمبلیوں کی 8 کامیاب ارکان میں سے 2 کا تعلق سندھ سے ہے ا ور یہ دونوں ماضی  میں بھی اپنے مخالفین کو شکست دیتی رہی ہیں۔ 
پی پی نے اس بار سندھ اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کا منصب سجاول کی ریحانہ لغاری کو سونپا ہے جو 2013ء کے د ورانیہ میںوزیر اعلیٰ سندھ کی معاون خصوصی برائے انسانی حقوق رہی ہیں۔ سندھ اسمبلی میں خواتین کے لیے مخصوص 29 نشستوں پر پی پی نے لاڑکانہ کی ندا کھوڑو (جو نثار کھوڑو کی صاحبزادی ہیں) سابقہ ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا، ملیر کی شاہینہ بلوچ، سابق سنیٹر عاجزدھامرہ کی اہلیہ حنا دستگیر، کراچی کی سعدیہ جاوید، لاڑکانہ کی شازیہ عمر، خیرپور کی سابقہ ایم پی اے غزالہ سیال، کراچی کی سابق وزیر شمیم ممتاز، اتو ڈیرو کی فرحت سلیمی سومرو، ماتلی کی تنزیلہ قمبرانی، دادو کی سجیلہ لغاری، سابق ایم پی اے ماروی راشدی، پیر سوہو، دادو کی کلثوم چانڈیو، سابق رکن سندھ اسمبلی پروین بشیر قائم خانی، تحریک انصاف نے  سدرہ عمران، سابق رکن اسمبلی سما ضیاء ، رابعہ اظفر، ادیبہ عارف، دعا بھٹو، متحدہ قومی موومنٹ نے منگلا شرما، رعنا انصار ، شاہانہ انصار اور رابعہ ماجد جبکہ جی ڈی اے نے نصرت سحر عباسی اور نسرین راجیہ کو تحریک لبیک پاکستان نے نامزد کیا ہے۔ ماروی راشدی 2002ء کی سندھ اسمبلی میں فنکشنل لیگ کی مخصوص نشستوں پر بھی کامیاب ہوئی تھیں۔ ان کی شادی پی پی کے ایم پی اے سید فصیح الدین شاہ سے اسی دورانیہ میں ہوئی ماروی جس ایوان میں پی پی پر تنقید کیا کرتی تھیں اب وہ پیپلز پارٹی کا دفاع کریں گی ایسا ہی معاملہ متحدہ کی حمایت سے کئی بار رکن اسمبلی بننے والی پیر سوہوکا ہے۔ ان کا تعلق ٹھٹھہ سے ہے۔  انہوں نے بھی 12 اگست کے بعد پی پی کو جوائن کر لیا تھا اب یہ بھی ماضی کے برعکس تقاریر کیا کریں گی کہ اس بار انہیں پی پی نے نامزد کیا ہے۔ دادو کی سجیلہ لغاری بھی اپنے شوہر کی وفات کے بعد ق لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب لڑا تھا اور جنرل نشست پر کامیاب ہوئی تھیں بعد میں وہ پی پی میں چلی گئیں اور پی پی نے انہیں مخصوص نشستوں کیلئے نامزد کیا ہے۔ 
بلاشبہ اب ایوانوں میں محترمہ فاطمہ جناح ، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، نسیمہ ولی خان اور ڈاکٹر فرید احمد یا بیگم عابدہ حسین جیسی شخصیات موجود نہیں لیکن جو امیدوار جیت کر ایوانوں میں پہنچی ہیں ان سے بہت سے توقعات وابستہ ہیں اور امید رکھنی چاہئے ماضی کی طرح یہ خواتین بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائیں گی کہ اب پارلیمانی تاریخ میں خواتین کا گرداب بڑھتا جا رہا ہے۔ 

مزیدخبریں