اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے سےاست دانوں کو کروڑوں روپے کی تقسیم سے متعلق اصغر خان کیس فیصلے پر عمل درآمدکیلئے ایف آئی اے اور وزارت دفاع کو چار ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے پیش رفت رپورٹ طلب کرلی ہے۔، عدالت نے وزارت دفاع کو ہدایت کی ہے کہ ایف آئی اے کو تمام معلومات فراہم کرے اوروزارت دفاع سابق فوجی افسروں کے خلاف کارروائی سے متعلق بھی آئندہ سماعت پر عدالت کوآگاہ کرے کس قانون اور طریقہ کار کے مطابق ملوث فوجی افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اگر ایف آئی اے اور وزارت دفاع سے نہ ہوا تو ہم خود فیصلے پر عمل درآمد کرا لیں گے ، سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل درآمد ضرور ہونا ہے ،آئندہ سماعت پر پیشرفت چاہیئے کیونکہ عدالت کیس کو لمبا عرصہ تک نہیں چلا سکتی، اصغر خان کیس کے فیصلے پر من و عن عمل ہونا چاہیے، ایف آئی اے عمل درآمد کا میکنزم بنائے اور آئندہ سماعت پر پیش رفت رپورٹ دے،دیوانی معاملات( سول سائیڈ)پر تحقیقات ایف آئی اے نے کرنی ہے، بتائیں کہ ملٹری اتھارٹیز نے ریٹائرڈ فوجی افسروں کیخلاف کیا کارروائی کی، یہ بھی بتایاجائے کہ ملٹری اتھارٹیز نے سابق فوجی افسروں کیخلاف کارروائی کے لیے دو ماہ میں کونسی قانونی ضروریات پوری کی ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایف آئی اے نے تفتیش میں پیش رفت کی رپورٹ جمع کرائی ہے مزید تفتیش ابھی جاری ہے جس کے با رئے میں عدالت کو آگاہ کر دیا جائے گا ،چیف جسٹس نے کہا کہ گزشتہ سماعت میں دیے گئے حکم کے مطابق تفتیش میں پیش رفت کا بتائیں کہ اب تک کیا پیشرفت ہوئی ہے ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حکم میں وزارت دفاع کو ایف آئی اے سے تفتیش میں تعاون کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ تفتیش کس مرحلے میں ہے؟ چیف جسٹس کے استفسار پر ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے بتایاکہ مزید تین لوگوں کے بیان ریکارڈ ہوئے ہیں،سابق وزیر اعظم میر ظفراللہ جمالی نے الیکشن کے بعد بیان ریکارڈ کروانے کا کہا ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ دو ماہ پہلے یہ حکم دیا تھا، اس کیس میں دو ہزار تیرہ کا فیصلہ ہے، نظرثانی اپیل بھی خارج ہو چکی ہے، جیسے بھی کرنا ہے تفتیش کو مکمل کریں، ایف آئی اے کے ڈی جی نے بتایا کہ ہم نے نوے کی دہائی میں سیاست دانوں میں رقم تقسیم کرنے والے فوجی افسروں کا ریکارڈ وزارت دفاع سے مانگا تھا تاکہ اس سے دیگر افراد کے بیانات کا موازنہ/تقابل کیا جاسکے ۔ وزارت دفاع کے ڈائریکٹر کرنل فلک ناز نے بتایا کیس میں ملوث افسران کے بارے میں کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کے ٹرائل کا معاملہ ملٹری اتھارٹی کو بھیجا جائے ۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ملٹری اتھارٹی کی جانب سے کیا پیش رفت کیا ہے؟ کرنل فلک شیر نے جواب دیا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی کیلئے قانونی ضرورت پوری کرنا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو اعتماد میں لیں کہ دو ماہ میں کون سی قانونی ضرورت پوری کی اور کیا پیش رفت ہے؟ کرنل فلک شیر نے کہا کہ کابینہ فیصلے کے مطابق وزارت داخلہ نے ابھی تک ملٹری اتھارٹیز کو نہیں لکھا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کا فیصلے آپ کو معلوم ہے تو پھر کیوں نہ ایساکیا؟ اگر وزارت دفاع نے جواب نہ دیا تو متعلقہ فوجی افسروں کو بلائیں گے، کسی کو عدالت میں حاضر ہونے سے استثنی نہیں ہے اورکسی کو عدالت میں پیش ہونے میں شرمندگی نہیں ہونی چاہیے،فیصلے پر عمل درآمد ہونا ہے،بتایا جائے کتنوں دنوں میں پیش رفت کر کے رپورٹ دیں گے ۔ کرنل فلک شیر نے بتایا کہ چار ہفتے کا وقت دیا جائے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے نے وزارت دفاع سے پانچ چھ افسران کی معلومات مانگی ہیں وہ آج تک نہیں دی گئیں ۔ کرنل شیر نے کہا کہ ایف آئی اے نے صرف نام دیے تھے عہدے اور یونٹ کی تفصیلات نہیں تھیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا ایف آئی اے نے دیگر افراد سے تفتیش کی ہے؟ ان افراد نے تفتیش میں تعاون کیا ہے تو ڈی جی نے بتایا کہ تعاون کیا جا رہا ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر تفتیش نہیں ہوسکتی تو ایف آئی اے بتا دے، یا وزارت دفاع تعاون نہیں کر رہی تو بھی بتا دیا جائے، اس صورت میں ہم خود عمل کرا لیں گے۔
اصغرخان کیس