اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی)15ویں قومی اسمبلی کا پہلا پارلیمانی سال مکمل ہو گیا۔ حکومت نے 11 اگست2019ء کو قومی اسمبلی کے ایام کار مکمل تو کر لئے لیکن قومی اسمبلی کی پورے سال کی کارکردگی مایوس کن رہی۔ قانون سازی نہ ہونے کے برابر رہی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدہ تعلقات کار کا پارلیمنٹ کی کارکردگی پر منفی اثر پڑا۔ حکومت نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی سطح پر آکر اس کا مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں ’’مسئلہ کشمیر‘‘ کے سوا کسی موقع پر اپوزیشن کو، وزیر اعظم عمران خان کو پرسکون ماحول میں تقریر نہیں کرنے دی۔ آئے روز حکومت اور اپوزیشن کے جھگڑے کی وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس ہنگامہ آرائی کی نذر ہوتے رہے۔ قومی اسمبلی میں حکومت کی ’’اینٹ کا جواب‘‘ پتھر دینے کی پالیسی نے پارلیمانی امن تباہ کر دیا۔ اپوزیشن کی’’ وکٹ‘‘ پر کھیلنے سے حکومت کو ہی نقصان اٹھانا پڑا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرح پی ٹی آئی کی حکومت نے صدارتی خطاب پر بحث کرانے میں دلچسپی نہیں لی۔ یہی وجہ کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب پر بحث سمیٹنے کی نوبت ہی نہیں آئی اور پارلیمانی سال مکمل ہو گیا ہے۔ اگست 2019ء کے اواخر میں دوسرے پارلیمانی سال کے آغاز سے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے خطاب کا پروگرام بنایا جا رہا ہے۔ کشمیر کی صورت حال کے تناظر میں صدر مملکت کا خطاب ’’پر سکون‘‘ ماحول میں کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ قومی اسمبلی میں ابتدا میں سپیکر اسد قیصر نے ’’فراخ دلی‘‘ سے اپوزیشن کے اسیر رہنمائوں کے پروڈکشن آرڈر جاری کئے لیکن کچھ عرصہ بعد سپیکر نے دبائو میں آکر پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا۔ آصف علی زرداری سمیت کچھ دیگر اپوزیشن لیڈروں نے پارلیمنٹ میں زیادہ وقت گذارنے کے لئے مختلف مجالس قائمہ کی رکنیت حاصل کر لی جس کے بعد سپیکر نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے علاوہ مجالس قائمہ کے اجلاس بلانے کی ممانعت کر دی۔ اسی طرح سپیکر نے رانا ثناء اللہ، محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے جب کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے پروڈکشن آرڈر کو دیگر اسیر ارکان کے پروڈکشن آرڈر سے مشروط کر دیا اور پیغام بھجوا دیا کہ اگر دیگر اسیر ارکان کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا جاتا تو وہ بھی پروڈکشن آرڈر پر قومی اسمبلی نہیں آئیں گے۔ اگرچہ ابھی تک حکومت نے پروڈکشن آرڈر کے قانون میں ترمیم نہیں کی لیکن حکومتی عزائم اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کسی وقت بھی پروڈکشن آرڈر کے قانون میں ترمیم آجائے گی۔