اسلام آباد (این اینا آئی)حکومتِ پاکستان نے مقامی سطح پر تیار ہونے والی اشیا کے مالکانہ حقوق کے تحفظ کیلئے قومی اسمبلی میں جغرافیائی علامت (جی آئی) بل پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اس قانون سازی کے نہ ہونے کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کی بنائی گئی یا برآمد کی گئی اشیا کو دیگر کمپنیاں اپنے نام سے منسوب کرکے فروخت کرتی ہیں جن میں پشاوری چپل (پال اسمتھ پشاوری چپل)، اجرک (موروکن اجرک) اور باسمتی چاول (کیلیفورنیا باسمتی) شامل ہیں، جو پاکستانیوں کو بین الاقوامی منڈی میں منافع سے روک رہی ہیں۔وزارت تجارت کے ایک سینئر عہدیدار نے بتایا کہ کابینہ کمیٹی برائے امور قانون سازی نے جی آئی (رجسٹریشن اور پروٹیکشن) بل 2019 کے مسودے کی منظوری دیدی۔انہوںنے کہاکہ اب ہم کابینہ کی منظوری کے بعد اسے قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کریں گے۔اس بل میں مخصوص اشیا کا ادراک کیا جائے گا، جن کا تعلق ایک مخصوص خطے سے ہو یا وہ کسی مخصوص خطے کی نمائندگی کرتی ہوں کیونکہ یہ عمومی طور پر روایتی اشیا ہوتی ہیں جنہیں مقامی، قومی اور بین الاقوامی منڈیوں میں ان کی مخصوص خصوصیت کی وجہ سے شہرت حاصل ہوتی ہے،اس قانون کا مقصد ان مصنوعات کو تسلیم کرنا اور ان کی حفاظت کرنا ہے جو ایسی مصنوعات کے بنانے والوں کو ان کی مناسب قدر حاصل کرنے کی اجازت دیگی۔اس بل کی منظوری کے بعد کئی مصنوعات کے مالکانہ حقوق کی حفاظت کی جاسکے گی جن میں چارسدہ/ پشاوری چپل، ملتانی حلوہ، سندھی اجرک، سرگودھا کا کینو، قصوری میتھی، سندھڑی آم، دیر کے چاقو، سوات کے جنگلی مشروم، چمن کے انگور اور پشمینا شال وغیرہ شامل ہیں۔