اسلامی فلاحی ریاست کا تصور عملی قالب میں ڈھال کر عوام کو سلطانی ٔ جمہور سے مستفید کیا جا سکتا ہے

وزیراعظم عمران خان کا قومی معیشت بہتر ہونے کا عندیہ اور عوام کیلئے سستی بجلی کی نوید
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور علامہ اقبال کے عظیم خواب کی تعبیر ہے‘ وہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے جس میں قانون کی بالادستی ہو‘ سب انسانوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں اور ریاست انکے حقوق کی ضمانت دے۔ ہم اس سفر کی جانب گامزن ہیں اور جدوجہد کے ذریعے منزل پر پہنچ کر دم لیں گے‘ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنایا جائیگا۔ انہوں نے گزشتہ روز قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ معیشت کی صورتحال بہتر ہونا شروع ہو گئی ہے اور کرونا کے کیسز بھی کم ہو گئے ہیں‘ سٹاک مارکیٹ ریکارڈ اوپر گئی ہے‘ تعمیرات اور اس سے وابستہ صنعتوں کو تاریخی پیکیج دیا ہے جس سے روزگار کے مواقع پیدا ہو گئے ہیں اور ٹیکس وصولی بھی بہتر ہوئی ہے‘ اس سے حالات مزید بہتر ہوتے جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ پاور کمپنیوں سے طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ ہو گیا ہے۔ قوم کو اس پر مبارک ہو کہ اب صنعتوں اور عوام کیلئے سستی بجلی دستیاب ہو گی۔ انہوں نے کہا جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو بہت مشکل حالات کا سامنا تھا‘ ہم نے قرضوں پر قسطیں ادا کرنا تھیں‘ ہمارے پاس فارن ایکسچینج نہیں تھا اور ہم ڈیفالٹ کررہے تھے۔ اگر ہم خدانخواستہ ڈیفالٹ کرجاتے تو ہمیں اسکے بہت برے اثرات کا سامنا کرنا پڑتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم ڈیفالٹ سے محفوظ ہو کر بہت بڑی مہنگائی سے بچ گئے ہیں۔ 
یہ تاریخی حقیقت ہے کہ بانیانِ پاکستان قائد و اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کو ہندو ساہوکارانہ نظام کی اقتصادی جکڑ بندیوں سے نکالنے‘ انگریز اور ہندو کے مسلط کردہ استحصالی نظام سے خلاصی دلانے اور مذہبی آزادیاں حاصل کرنے کیلئے قیام پاکستان کی جدوجہد کی تھی۔ اس سلسلہ میں مصور پاکستان‘ شاعر مشرق علامہ اقبال نے پاکستان کا تصور پیش کیا اور اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں اسکے خدوخال نمایاں کئے جن کے انتقال کے بعد قائداعظم محمدعلی جناح نے مسلمانوں کی نئی مملکت کیلئے علامہ اقبال کے تصورِ پاکستان کی روشنی میں تحریک پاکستان کا آغاز کیا جو انکے وژن کے مطابق کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور 14؍ اگست 1947ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آگیا۔ بانیانِ پاکستان کی منشاء بلاشبہ ایسی اسلامی فلاحی مملکت کی تشکیل تھی جس میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو استحصالی نظام سے فی الواقع چھٹکارا ملے اور انہیں مذہبی آزادیوں کے ساتھ ساتھ تعلیم‘ صحت‘ روزگار کے بھی مساوی مواقع ملیں۔ فلاحی ریاست کا یہ تصور ریاست مدینہ کے تصور پر ہی مبنی ہے اور بانیانِ پاکستان کا یہی مطمح نظر تھا۔ قیام پاکستان کے بعد قائداعظم مزید کچھ عرصہ حیات رہتے تو پاکستان کی اسلامی فلاحی ریاست والی بنیاد مستحکم بنا جاتے اور پھر کسی کو یہاں ہندو اور انگریز کا استحصالی نظام دوبارہ مسلط کرنے کی جرأت نہ ہوتی۔ بدقسمتی سے قائداعظم کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی اپنے خالق حقیقی کے حضور پیش ہو گئے جس کے بعد پاکستان میں موجود ہندو اور انگریز کے ایجنٹوں اور مفاد پرست سیاست دانوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے اس ارض وطن کو دوبارہ استحصالی نظام کی جانب دھکیل دیا اور بانیانِ پاکستان کے اسلامی فلاحی مملکت کے خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیئے۔ 
یہ وطن عزیز اپنے قیام کے بعد سات دہائیوں سے زائد عرصہ سے قائدو اقبال کی وضع کردہ اپنی منزل کی تلاش میں مگن ہے اور اس عرصہ میں وطن عزیز نے جہاں 30 سال سے زائد عرصہ تک جرنیلی آمریتوں کو بھگتا ہے وہیں سول آمریتوں جیسی سلطانیٔ جمہور میں بھی عوام کی اپنے اقتصادی مسائل کے حوالے سے درگت بنتی رہی ہے اور اسلامی فلاحی ریاست کا تصور کبھی عملی قالب میں نہیں ڈھل پایا جبکہ ریاست نے شہریوں کو صحت‘ تعلیم‘ روزگار کی سہولتیں دینے سے ہاتھ اٹھائے رکھا ہے۔ سابقہ ادوار میں صرف حکمران اشرافیہ طبقات کو قومی وسائل اور ریاستی اختیارات سے فیض یاب ہونے کے مواقع فراہم کرنیوالی پالیسیاں وضع کی جاتی رہیں جس سے سلطانیٔ جمہور کا تصور کبھی پنپ ہی نہیں پایا اور پانی‘ گیس‘ تیل اور قیمتی دھاتوں جیسے قدرتی وسائل بھی صرف حکمران اشرافیہ طبقات ہی کی دسترس میں رہے اس طرح امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتے چلے گئے۔ 
ان حالات میں عمران خان نے قومی سیاست میں آکر سسٹم کی اصلاح اور عوام کو اقتصادی استحصالی نظام سے نجات دلانے کا بیڑہ اٹھایا‘ تبدیلی اور نئے پاکستان کا نعرہ لگایا اور ملک کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا عزم باندھا۔ چنانچہ عوام نے انکی آواز پر لبیک کہا اور 2018ء کے انتخابات میں انہیں وفاق اور صوبوں میں حکمرانی کا مینڈیٹ دے دیا۔ انکے منشور‘ وعدوں اور نعروں کی بنیاد پر عوام نے اپنے روزمرہ کے غربت‘  مہنگائی اور روٹی روزگار کے مسائل کے فوری حل کیلئے امیدیں باندھ لیں تاہم بتدریج تنزلی کا شکار قومی معیشت کی بنیاد پر حکومت کیلئے مہنگائی پر فوری قابو پانا اور عوام کے روٹی روزگار کے مسائل فوری طور پر حل کرنا عملاً ناممکن تھا۔ حکومت کو قومی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے سخت گیر اقدامات اٹھانا پڑے اور آئی ایم ایف سے بھی رجوع کرنا پڑا جسکے باعث عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوگئے اور روزفزوں مہنگائی ان کیلئے ناقابل برداشت ہو گئی۔ اسی طرح نجی پاور کمپنیوں سے سابق حکمرانوں کے کئے گئے معاہدوں کے باعث توانائی کا بحران بھی برقرار رہا اور قومی و ضمنی میزانیوں میں ٹیکسوں کی شرح بڑھنے اور نئے ٹیکس لگنے سے ملک میں مہنگائی کے سونامی اٹھنا شروع ہو گئے جبکہ بے روزگاری بھی انتہائوں کو چھونے لگی اس طرح وزیراعظم عمران خان کا ملک کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا تصور بھی گہنا گیا اور پھر کرونا کی آفت نے ملکی معیشت کو کمزور کرنے کی رہی سہی کسر بھی نکال دی۔ 
اب جبکہ پی ٹی آئی حکومت کا دو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے‘ عوام میں اپنے روٹی روزگار کے مسائل حل نہ ہونے کے باعث بڑھتی ہوئی مایوسی حکومت کیلئے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو یقیناً اس صورتحال کا مکمل ادراک ہے اس لئے وہ عوام کے غربت مہنگائی‘ روٹی روزگار کے مسائل کے حل کا تردد اور حکومتی انتظامی مشینری کو متحرک کرتے رہتے ہیں۔ انہوں نے جہاں عوام کیلئے مختلف ریلیف پیکیجز دیئے وہیں اب انہوں نے آئی پی پیز سے معاہدے کی بنیاد پر عوام کو بجلی سستی ہونے کی بھی نوید سنائی ہے۔ یقیناً بجلی کی چوری روک کر اور لائن لاسز پر قابو پا کر بھی بجلی سستی کی جاسکتی ہے تاہم حکومت آئی پی پیز سے خلاصی پا کر ہائیڈل بجلی کی پیداوار پر توجہ دے‘ جس کیلئے ہمارے پاس پانی کے وسائل بھی موجود ہیں تو بجلی سستی ہی نہیں‘ وافر مقدار میں بھی دستیاب ہو گی اور اس طرح توانائی کے بحران سے بھی قوم کو خلاصی مل جائیگی۔ اگر وزیراعظم عوام کے روٹی روزگار اور مہنگائی کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ان پر قوم کا اعتماد مزید مضبوط ہوگا اور کوئی حکومت مخالف تحریک ان کا کچھ بگاڑ نہیں پائے گی۔

ای پیپر دی نیشن