کل 15 اگست کو وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے زیر اہتمام بھارت کا 73 واں یوم آزادی تو منا گیا تھا لیکن مقبوضہ کشمیر ، آزاد کشمیر ، پاکستان اور بیرونی ملکوں میں کشمیریوں اور اہلِ پاکستان میں اُسے ’’یوم سیاہ ‘‘ (Black Day) کے طور پر منایا ۔ اِس سے پہلے بھی اِسی طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں لیکن، بھارت کی دہشت گرد تنظیم ’’ راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ‘‘ (R.S.S.S) کی کوک سے نکلی ’’ بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ کے دَور میں 15 اگست کا دِن کچھ زیادہ ہی سیاہؔ دِکھائی دِیا۔ دراصل کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے ہر بھارتی وزیراعظم اور اُس کے ’’طفیلی صدر ‘‘ کی قسمت میں سیاہی کچھ زیادہ ہی لکھی گئی ہے۔
’’ بھارت سے دوستی!‘‘
معزز قارئین!مَیں اور میرے کالم نویس دوست اکثر یہ تذکرہ کِیا کرتے ہیں کہ ’’ 9 ستمبر 2008ء سے 9 ستمبر 2013ء تک ’’دامادِ بھٹو ‘‘ آصف علی زرداری نے اور تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم میاں نواز شریف آخری بار 28 جولائی 2017ء تک ’’کانگریسی مولویوں کی باقیات‘‘ مولانا فضل اُلرحمن کو چیئرمین کشمیر کمیٹی بنائے رکھا اور بھارت سے دوستی کو بہت ہی زیادہ مضبوط کرلِیا تھا۔ دونوں سیاستدانوں کے خلاف جو مقدمات چل رہے ہیں اُن کا ’’مسئلہ کشمیر ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ’’ 14 اگست کو ’’ یوم آزادی پاکستان‘‘ اور 15 اگست کو ’’ یوم آزادی بھارت ‘‘ کے موقع پر دونوں قائدین کی پارٹیوں کے دوسرے اور تیسرے درجے کے قائدین الیکٹرانک میڈیا پر کشمیری عوام کی کھل کر حمایت کرتے ہُوئے دِکھائی دئیے ۔
18 اگست کوجنابِ عمران خان نے وزارت ِ عظمیٰ سنبھالی تو عوام و خواص کو یہ تاثر ملا کہ’’وہ شاید بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو (راہِ راست) پر لانے کے لئے "Goodwill"کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ 28 نومبر کو وزیراعظم عمران خان نے اعلان کِیا تھا کہ ’’پاکستان بھارت کے ساتھ "Franco German Union" کے طرز پر "Pak India Union" بنانے کا خواہشمند ہے ‘‘ لیکن، مودی جی اور اُن کی پشت پر ہاتھ رکھنے والی قوتوں نے وزیراعظم پاکستان کی اِس نیک خواہش کو پورا نہیں ہونے دِیا۔
’’پاکستان کا سیاسی نقشہ!‘‘
5 اگست 2019ء کو جب، نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ’’ عرصہ حیات‘‘ تنگ کر دِیا تووزیراعظم عمران خان کو بھارت کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا پڑی پھر حالات اِس طرح کے ہوگئے کہ ’’اُنہوں نے 5 اگست 2020ء کو ’’یوم استحصالِ کشمیر‘‘ منانے سے ایک دِن پہلے 4 اگست کو پاکستان کا نیا ’’ سیاسی نقشہ‘‘ جاری کردِیا۔ اِس طرح کا جرأتمندانہ اعلان پاکستان کے کسی سابق صدر یا وزیراعظم نے کبھی نہیں کِیا تھا ۔ نقشے میں بھارت کے غیر قانونی قبضے والے جموں و کشمیر کے ساتھ سرحد کو کھلا رکھا گیا ہے ۔ حکومت ِ پاکستان کی طرف سے نقشے کو اقوام متحدہ میں پیش کرنے کا اعلان بھی کِیا گیا ۔
سوال یہ ہے کہ ’’ اقوام متحدہ ، اُس کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے تو کبھی بھی مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کے حق خود ارادی کے مطابق حل کرنے پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کِیا؟۔ 18 جون 2020ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے آٹھویں بار بھارت کو 2 سال کے لئے اپنی ’’ سلامتی کونسل‘‘ کا غیر مستقبل رُکن منتخب کر لِیا تھا۔ حیرت ہے کہ ’’ بھارت کو، اقوام متحدہ کے 193 ارکان میں سے 184 ارکان کے ووٹ ملے۔ مَیں نے 20 جون 2020ء کے کالم میں ۔ ’’ بن گئی۔ اقوام متحدہ، سماجِ مُک مُکا!‘‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں لکھا تھا کہ ’’ حیرت ہے کہ ’’ دُنیا کے 57مسلمان ملکوں کی تنظیم "O.I.C" (Organisation of Islamic Cooperation) کے حکمرانوں میں سے کسی نے بھی کشمیری عوام کی ’’ حق خود ارادیت‘‘ کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کرنے میں پاکستان سے تعاون کیوں نہیں کِیا؟
’’سیّد علی شاہ گیلانی کو نشانِ پاکستان‘‘
معزز قارئین! 9 نومبر 1959ء سے 23 جون 2019ء تک ملکہ برطانیہ ، مختلف بادشاہوں ، صدوراور وزرائے اعظم کو پاکستان کے سب سے اعلیٰ "Civil Award" (نشانِ پاکستان) سے نوازا گیا ہے ۔ پرسوں (14 اگست کو ) پاکستان کے یوم آزادی پر صدرِ پاکستان جناب عارف اُلرحمن علوی نے مقبوضہ کشمیر میں سالہا سال سے حُریت پسند کشمیریوں کے قائد ( بابائے کشمیر) غوث ِ اعظم سیّد عبداُلقادر جیلانی/ گیلانی ؒکے فرزند ، سیّد علی شاہ گیلانی کو ’’ نشانِ پاکستان‘‘ پیش کِیا۔ مجھے اِس موقع پر حضرت غوثِ اعظمؒ کا یہ شعر یاد آ رہا ہے ۔ آپ ؒنے فرمایا تھا کہ …
مہرومہ را ، روشنی از پرتو ، رُخسار تُست!
بے رخت ہرگز چراغ ، مہرومہ رُوشن مباد!
…O…
یعنی ’’ اے میرے محبوب ِحق! سورج اور چاند کو تیرے ہی رخسار کے پرتو سے رشنی ملی ہے ۔ کتنا ہی اچھا کہ سورج اور چاند کے چراغ تیرے رُخِ منور کی روشنی کے بغیر ہر گز فروزاں نہ ہوں ! ‘‘۔
’’مُرارجی ڈیسائی کو نشانِ پاکستان!‘‘
معزز قارئین! نہ جانے کب تک دُنیا بھر کے کشمیریوں کو ہر سال 15 اگست کو بھارت کے ’’ یوم آزادی کو ’’ یوم سیاہ‘‘ منانا پڑے گا؟ لیکن یہ بات "On Record"ہے کہ ’’ سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ، صدرِ پاکستان و وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی دُختر ِ نیک اختر اور دو بار منتخب وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے 19 مئی 1990ء کو ’’بھارتیہ جنتا پارٹی ‘‘کے بھارتی وزیراعظم مسٹر مُرار جی ڈیسائی کو بھی ’’ نشانِ پاکستان‘‘ سے نوازا تھا ۔ اب کر لو جو کرنا ہے؟‘‘
٭…٭…٭