پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنا اور مختلف طریقوں سے اسے غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں مصروف رہنا بھارت کا وتیرہ ہے۔ پاکستان میں ہونے والے تخریب کاری کے ایسے واقعات کی ایک طویل فہرست موجود ہے جن کے بارے میں یہ ثابت ہوچکا ہے کہ وہ بھارت نے کیے یا کرائے۔ ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ ماہ پیش آیا جس میں داسو کے قریب ایک بس دھماکے کے بعد قریبی نالے میں جا گری جس میں کم از کم 13 افراد جاں بحق اور 28 زخمی ہوئے۔ اس واقعے میں جاں بحق ہونے والے افراد میں سے 9 کا تعلق چین سے تھا۔ اس واقعے میں متاثر ہونے والے افراد داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ پر کام کررہے تھے۔ پاکستان کے سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں نے اس واقعے کے بارے میں کھوج لگانا شروع کیا۔ اس دوران انہیں ایسے ثبوت ملے جن سے پتا چلا کہ اس واقعے میں بھارت ملوث ہے۔ پاکستان ان واقعات کو عالمی برادری کے سامنے رکھ کر بھارت کے بارے میں دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ بھارت کس طرح خطے کے امن و استحکام کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت کا اس واقعے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پاکستان دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چودھری نے اس واقعے میں ملوث نہ ہونے کا بھارتی وزارت خارجہ کا بیان مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی تردید اور جھوٹے بیانیوں کا واویلا کرنے سے حقائق تبدیل نہیں ہوں گے۔ پاکستان متعدد مرتبہ ایسے ناقابل تردید شواہد سامنے لاچکا ہے کہ بھارت پاکستان میں نہ صرف دہشت گردی کرانے بلکہ اس کی منصوبہ بندی، معاونت و مدد، سرپرستی اور سرمایہ کی فراہمی میں بھی ملوث ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم گزشتہ برس عالمی برادری کو اس ضمن میں ٹھوس شواہد پر مبنی دستاویزات فراہم کرچکے ہیں جبکہ حال ہی میں لاہور حملے میں بھارت کے ملوث ہونے سے متعلق ثبوت بھی پیش کیے گئے ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان میں پیش کردہ حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ بین الاقوامی برادری واضح ثبوت ملنے کے باوجود بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کررہی جس کی وجہ سے بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم پر ہٹ دھرمی سے ڈٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ عالمی اداروں اور برادری کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ممالک ہیں اور ان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی صرف ان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ پوری دنیا کے لیے مسائل کا باعث بن سکتی ہے۔