محرومیاں الوداع وعدے پورے ہونگے ورنہ عوام کے کٹہرے میں ہونگے

Aug 16, 2021

فیصل ادریس بٹ 
2018ء کے انتخابات ہوئے تو مرکز اور پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف حکومت سازی کی پوزیشن میں آ گئی وزارت عظمیٰ کیلئے پارٹی چیئرمین عمران خان کے علاوہ کوئی دوسری آپشن زیرغور بھی نہیں تھی، مگر پاکستان کے سب سے بڑے اور اہم صوبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر پہلی بار عجب سی بے یقینی پھیل گئی بہت سے امیدوار اپنے اپنے سی وی لئے بمع تجربہ کی اسناد کے وزارت اعلیٰ کیلئے انٹرویو دینے کیلئے لائن میں کھڑے نظر آئے، بہت سوں کے پاس سفارشی خطوط بھی موجود تھے، مگر جب پنجاب کے وزیراعلیٰ کیلئے نام پکارا گیا تو سب حیران بلکہ ہکا بکا رہ گئے۔ پنجاب کے تمام سیاسی بت الٹ گئے کہ یہ عثمان بزدار نامی شخص کہاں سے آ گیا، نہ کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ، نہ وزارتوں کا تجربہ، نہ کوئی سفارش حتیٰ کہ اسمبلی میں داخل ہونے کے آداب سے بھی شاید نا واقف ۔وزیر اعلیٰ بننے کے بعد ابتداء میں بیوروکریسی نے انہیں چند ہفتوں کا مہمان وزیراعلیٰ سمجھ کر فائلیں سرخ فیتے کا شکار کرنا شروع کر دیں ان کیلئے جو کابینہ منتخب کی گئی اس کے بہت سے ارکان نے ان کو نااہل ثابت کرنے کیلئے خودان کے خلاف مہم چلانا شروع کر دی۔ سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی طرح نہ وہ بارش کے پانی میں کھڑا ہو کر تصویریں بنوا سکتے تھے نہ انہیں افسروں کی سرزنش کرنی آتی تھی۔ اس کا پارٹی کے اندر کوئی اتنا مضبوط گروپ نہ تھا۔اگرچہ 40 یا 50 ایم پی اے کا گروپ وہ آرام سے بنا سکتے تھا مگر اپنے لیڈر کی وفاداری کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے۔ اس کا کوئی بڑا ہاؤسنگ پراجیکٹ چل رہا ہوتا یا کسی بڑے صنعتکار مافیا سے اس کا تعلق ہوتا تو وہ سب ہر وقت اس کی پشت پناہی کر رہے ہوتے، انہیں اپنے گروپ کے وزیراعلیٰ کو بچانے کے لیے ملک میں اشیائے خوردونوش کی قلت کرنا پڑتی تو وہ کرتے وہ خود بھی اپنی امیج پلاننگ کیلئے پیسہ پانی کی طرح بہادیتا۔ میڈیا اسے ہر جگہ دنیا کا ذہین ترین اور پنجاب کا قابل ترین وزیراعلیٰ ثابت کردیتا۔ مگر ان تمام عوامل کے بغیر بھی ان کی سادگی کی وجہ سے پارٹی چیئرمین عمران خان پنجاب کی باگ ڈور عثمان بزدار کے حوالے کرنے کا فیصلہ شاید بہت پہلے کر چکے تھے۔
ہمارے ملک کے بہت سے علاقوں کی پسماندگی غربت اور محرومی کی بہت بڑی وجہ بھی یہی سردارہیں ، تاکہ قبیلوں پر ان کی حاکمیت برقرار رہ سکے۔ مگر ایک سردار جو اس وقت پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر بھی فائز ہے اسے  سکول کالج یونیورسٹیاں بنانے، ڈسپنسریاں ،ہسپتال قائم کرنے، اپنے علاقوں میں سڑکیں بنوانے اورلوگوں کو روزگار دینے سے اپنی سرداری خطرے میں جاتی محسوس نہیں ہوتی ۔لوگوں کی تنقید پر اس کی پیشانی پر کوئی شکن بھی نہیں آتی بلکہ الٹا مسکراتا رہتا ہے، اپوزیشن کے الزامات پر بھی ان کی زبان میں جواب دینے کو غیر اخلاقی سمجھتا ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کا تعلق دور دراز ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ سے ہے ،جسے یونان صغیر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔کوہ سلیمان پر بسنے والے تمام قبائل کے مقابلے میں یہاں تعلیم کا زیادہ رجحان پایا جاتا ہے، تونسہ کا بلوچ بزدار قبیلہ انگریزوں کے خلاف جدوجہد اور مزاحمت کی وجہ سے بھی خاص شہرت رکھتا ہے بلوچ قبیلے کے جد امجد میر چاکر خاں رند ہیں جوقبائلی جنگ و جدل سے بیزار ہو کر اوکاڑہ کے نواح میں جا بسے تھے ان کا مزار ست گرا میں موجود ہے۔ 1981ء میں اس قبیلے کے سرکردہ سردار دوست محمد خان کی وفات کے بعد قبیلے کی دستار سردار فتح محمد خاں کے سر پر سجی، سرار فتح محمد خاں بزدار 1981 میں مجلس شوریٰ کے رکن رہے، 1985ئ، 2002ء اور 2005ء میں رکن پنجاب منتخب ہوئے سردار فتح محمد خان ہمیشہ اپنے لوگوں کی ترقی اور خوشحالی کیلئے فکر مند رہے مگر شاید محدود اختیارات اور دور دراز علاقے سے تعلق کی وجہ سے تخت لاہور میں ان کی خواہشات کے مطابق شنوائی نہ ہو سکی۔ مگر ان کی ان خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے قدرت نے ان کے بیٹے سردار عثمان بزدار کو تخت لاہور پر بیٹھا دیا،سردار عثمان بزدار ایک بڑے قبیلے کے سربراہ ہونے کے علاوہ اعلی تعلیم یافتہ بھی ہیں ۔تعلیم سے ان کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے پاکستانیوں میں سرداروں کے حوالے سے جو تاثر ہے وہ اب تبدیل ہو جائے گا۔
 سادگی اورکسی بڑے صنعتی مافیا کا حصہ نہ ہونا جیسی خامیاں ہی عثمان بزدار کا میرٹ بن گئیں کیونکہ پارٹی قیادت سے وہ مخلص اور وفادار ہیں۔ انہیں وزارت اعلیٰ سنبھالے تین سال گزرنے کو ہیں اس دوران انہوں نے تمام سازشوں کو ہنستے مسکراتے ٹال دیاانہوں نے کام سیکھ لیا انہیں اب گفتگو کرنا بھی آ گئی ہے، سب سے بڑی بات انہیں اپنی مشینری سے کام لینا بھی آ گیا ہے، گزشتہ ایک سال کے دوران ہمارے سامنے جو سردار عثمان ہے وہ ایک زیرک ایڈمنسٹریٹر عثمان بزدار بن چکا ہے ، اسے اپنے سیاسی حریفوں سے نمٹنا بھی آ چکا ہے ۔بیوروکریسی اب وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے اشاروں پر کام کرتی نظر آتی ہے۔ وزیر اعلی پنجاب نے اپنے لئے ایک ایسے  بیوروکریٹ طاہر خورشید کا انتخاب کیا جو بیوروکریٹس سے وفاداری کی بجائے عمران خان کے ویژن اور عثمان بزدار کے احکامات پر عمل درآمد کروانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے، اسی لئے وہ آئے روز خود بھی مافیاز کی تنقید کا نشانہ بنے رہتے ہیں ۔ وزیراعلیٰ کا ایک بہت بڑا جرم یہ بھی ہے کہ اس نے فنڈز کا بہاؤ جنوبی پنجاب کی طرف موڑ دیا ہے وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں وہ تو ایک پسماندہ علاقے سے ہیں کیا اہل علاقہ اور ان کے قبیلے والے ان کا یہ جرم معاف کر دیں گے؟ 
پنجاب میں 15 یونیورسٹیوں کے قیام اعلان کر کے سردار عثمان بزدار نے نہ صرف پنجاب میں تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھ دی ہے بلکہ سردار نظام کے خلاف علم بغاوت بھی بلند کر دیا ہے صوبوں سے محرومیوں کا شکار جنوبی پنجاب جہاں سے وزرائے اعلیٰ بنتے رہے وزارت اعظمی پر بھی اس علاقے کے قائدین کو فائز رہنے کا موقع ملا یہاں تک کہ ایوان صدر میں بھی جنوبی پنجاب کی حکمرانی رہی مگر عام آدمی کی قسمت نہ بدل سکی، سردار عثمان بزدار نے وزارت اعلیٰ سنبھالنے کے فوکس ہی جنوبی پنجاب پر کر رکھا ہے۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام اور اسے جس تیزی کے ساتھ فعال کیا جا رہا ہے، وہ ان کی سنجیدگی اور انتظامی امور کے حوالے سے سمجھ بوجھ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے، جنوبی پنجاب میں سڑکوں کا جال بچھایا جا رہا ہے، جو ترقی کے نئے راستے کھول دے گا جنوبی پنجاب کے سرداریوں کے بوجھ تلے عوام کو روزگار دے کر سسٹم کے خلاف ایک اور بغاوت کر رہے ہیں، 21 ویں صدی میں جہاں انسان اور جانور ایک ہی ٹوبے سے پانی پیتے ہوں، اسے ان لوگوں کی بدقسمتی اور ان کے نمائندوں کی سنگدلی ہی کہا جا سکتا ہے مگر عثمان بزدار نے پورے جنوبی پنجاب میں صاف پانی منصوبہ شروع کر دیا ہے، جنوبی پنجاب میں سیاحتی معیشت کو فروغ دینے کیلئے سیاحتی مقامات کی ترقی کیلئے فنڈز مختص کر دیئے ہیں، جنوبی پنجاب میں دو ڈیم بھی بنائے جا رہے ہیں، جو بارشوں کے پانی کو نہ صرف فصلوں کی آبیاری کیلئے محفوظ بنائیں گے بلکہ سارا سال پینے کے پانی کی قلت بھی پیدا نہیں ہونے دیں گے جنوبی پنجاب کے تین ڈویژن ملتان بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان کی یارہ اضلاع کی عوام کی دہلیز پر سہولیات کی فراہمی بھی عثمان بزدار کا کریڈٹ ہے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی انتھک محنت پر عمل درآمد کروانے کے لیے ان کے پی ایس او حیدر علی  بھی دن رات کوشاں رہتے ہیں وہ وزیر اعلی کے احکامات نہ صرف عمل درآمد کروانے میں مصروف عمل رہتے ہیں بلکہ حیدرعلی وزیراعلیٰ کو عوامی مسائل کی نشاندہی بھی کرتے رہتے ہیں حیدر علی بی ملک مخالفین کی تند و تیز جملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں ان کا جرم بھی وزیراعلیٰ سے وفاداری ہے ۔پی ٹی آئی کی حکومت تمام علاقوں کی یکساں ترقی پر یقین رکھتی ہے، وزیراعظم عمران خان اور عثمان بزدار نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے پنجاب کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 360 ارب روپے کا ڈسٹرکٹ  ڈویلپمنٹ  پیکج مختص کیا ۔ جنوبی پنجاب کے ترقیاتی منصوبہ جات کیلئے 198 ارب کی خطیر رقم مختص کی گئی سب سے انقلابی کام عثمان بزدار نے یہ کیا کہ جنوبی پنجاب کا پنجاب میں پنجاب کی ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم رائج کروا دیا ہے یہ انقلابی قدم آنے والے وقت میں ان پسماندہ علاقوںکی محرومیوں کا ازالہ کرے گا 

مزیدخبریں