افغان فوج کی حیران کن پسپائی !

 12 اگست 2021کی شب تک افغان طالبان پیش قدمی کرتے ہوئے افغانستان کے جنوب و شمال میں10صوبائی دارالحکومتوں پر قابض ہوچکے تھے  جبکہ اس سے  4 روز قبل تک ان کے قبضہ میں صرف پانچ صوبے تھے ۔ حالانکہ ابتدائی 4دارالحکومتوں پر قبضہ کیلئے افغان طالبان نے کئی ہفتے لگا دیے تھے۔ افغان فوج کی اس طرح پسپائی پر امریکہ نے مایوسی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ صورت حال غلط سمت میں جارہی ہے ۔ عالمی دفاعی ماہرین بھی حیران ہیں کہ کھلے علاقوں میںیا شہروں سے باہر گائوں کی آبادیوں پر بھی قبضہ کرنے میں حملہ اور فوج کو وقت لگتا ہے ۔ تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ افغان طالبان بڑے شہروں ، خاص کر صوبائی دارلحکومتوں پر اس انداز سے قابض ہورہے ہیں کہ جیسے وہ برق رفتار گاڑیوں پر سوار ہوں اور انہیں روکنے والا کوئی نہ ہو۔ حیران کن طور پر ایک ماہ پہلے تک افغان طالبان کے قبضے میں کوئی ایک بھی بڑا شہر یا صوبائی دارالحکومت نہیں تھا۔ ان تمام صوبوں و شہروں کی حفاظت کیلئے جدید امریکی اسلحہ سے لیس اور امریکہ ہی کی ترتیب یافتہ ایک لاکھ 80ہزار کی نفری پر مشتمل افغان نیشنل آرمی موجودتھی۔ اگر ایئر فورس ، فوج کے خصوصی دستوں ، افغان پولیس اور خفیہ اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی ساتھ شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد بڑھ کر تین لاکھ سات ہزار کی نفری تک پہنچ جاتی ہے۔افغان فوج کے پاس دنیا کا ایسا جدید اسلحہ بھی موجود ہے جو فی الحال امریکی افواج کے علاوہ دنیا میں دیگر کسی ملک کی فوج کے زیر استعمال نہیں۔افغانستان سے رخصتی کے وقت امریکی افواج اپنے زیراستعمال بکتر بند گاڑیوں ، چھوٹے دہانے کی تباہ کن توپوں ، حملہ آوروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کیلئے چھوٹے ڈرون طیاروں اور ان کو کنٹرول کرنے والے پینلوں کے علاوہ رات کو دیکھنے والی عینکوں کی بڑی تعدا د اپنی تربیت یافتہ افغان فوج کے حوالے کر کے گئی ہیں۔ 
اگر ایئر فورس کی بات کریں تو افغان ایئر فورس کے پاس مختلف اقسام کے 167 جنگی جہاز اور جنگی ہیلی کاپٹر موجو دہیں ۔ اس کے برعکس افغان طالبان جن کی افرادی قوت 55ہزار سے 85ہزار کے درمیان بتائی جاتی ہے ۔ ان کی جنگی استعداد کا سارا دارومدار اے کے 47کلاشنکوف ، راکٹ لانچر و گرینڈ، افغان و امریکی اور نیٹو فوجیوں سے چھینی ہوئی اسالٹ رائفلز ، ملکی و بھارتی مشین گنوں ، سنائپررائفلوں اور کسی حد تک مارٹر راکٹوں پر ہے ،تاہم گزشتہ 20برسوں میں افغان طالبان نے افغانستان پر قابض امریکہ و نیٹو افواج کے خلاف ریموٹ کنٹرول و خود کش بم دھماکوں کو بطور ہتھیار  زیادہ موثر طور پر استعمال کیا۔ جس کا جواب انہیں جدید ترین امریکی میزائلوں یا بی 52طیاروں سے گرائے گئے بموں کی صورت میں ملا لیکن پھر بھی امریکی افواج کی ہو ااکھڑ گئی۔ امریکی افواج نے رخصتی اختیار کی تو 2دہائیوں تک افغانستان میں امریکی یلغار اور افغان طالبان کی مزاحمت اور جنگ لڑنے کے طریقہ کار پر نظر رکھنے والے دنیا بھر کے تجزیہ کاروں کا ایک ہی کہنا تھا کہ افغان نیشنل آرمی و اشرف غنی کی مسلط کردہ حکومت زیادہ عرصہ تک افغان طالبان کا سامنانہیں کر پائے گی ۔آج کے حالات میں  افغان طالبان کی پیش قدمی روکنے کیلئے  گزشتہ دو ہفتوں میں امریکہ نے اپنی ہوائی قوت کا انتہائی بے دردی سے استعمال کیا ہے جس میں زیاہ نقصان سول آبادیوں میں رہائش پذیر خاندانوں ، خاص کر بچوں اور خواتین کا ہوا۔ اس سفاکیت کے نتیجے میں بہت سے گھروں میں پورے خاندان کے افراد لقمہ اجل بن گئے ، یہی کچھ افغان صوبہ قندوز میں ہفتہ سات جولائی کی شام امریکیوں نے افغان حکومت کی درخواست پر افغان طالبان کی یلغار کو روکنے کیلئے ہوائی حملے کی صورت میں کیا اور مختلف مقامات کو نشانہ بنایا جس کی زد میں افغان طالبان کی بجائے عام بے گناہ لوگ آئے ۔ دوسرے روز قندوز سے ہزاروں شہریوں نے اپنے گھروں سے قیمتی اور آسانی سے آٹھایا جانے والا سامان سمیٹا اور کابل شہر کا رخ کیا، اتوار کی رات تک امریکہ کی طرف سے بمباری کی باوجود افغان طالبان قندوز پر اپنا قبضہ مستحکم کر چکے تھے۔ 
کابل میں قندوز اور دیگر شہروں سے پناہ کیلئے پہنچنے والے ہزاروں افغان شہریوں کو (جن میں عورتیں اور بچوں کی بڑی تعداد موجود ہے) عارضی کیمپوں میں ٹھہرایا گیا ہے اس کے باوجود بہت بڑی تعداد کابل کے سڑکوں پر بے یارومددگار ڈیرے ڈالے ہوئے ہے۔جسے افغان حکومت اور امریکہ کے زیر اثر میڈیا ان کی بے چارگی کو افغان طالبان اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کیلئے استعمال کر رہاہے۔ بتایاجارہا ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان کی فتوحات کے پیچھے پاکستان کی مدد اور ہنمائی اصل وجہ ہے۔ اس طرح کے لغوالزمات یا پروپیگنڈہ کے وقت افغان حکومت وامریکہ اور اشرف غنی و افغان نیشنل آرمی کے مشیر بھول جاتے ہیں کہ افغان طالبان کے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں جو انہیں پاکستان نے تھما رکھی ہے۔ وہ چھڑی گھماتے ہیں اور ایک صوبہ فتح کر لیتے ہیں۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبا ن حملے کیلئے جس شہر کا رخ کرتے ہیں وہاں کے عوام کوپہلے سے اس حملے کا علم ہوتا ہے ۔ اب یہ افغانستان پر مسلط کی گئی کٹھ پتلی حکومتوں کے نااہلی ہے یا افغان طالبان کی کامیاب حکمت عملی کہ انہوںنے افغانستان کے طول و عرض میں ہر سطح پر عوام سے رابطہ رکھا ہوا ہے۔ جس کی انہوںنے گزشتہ 20برسوں سے افغانستان میں  سرگرم سی آئی اے ، ایم آئی 6،موساد، را اور افغان خفیہ ایجنسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دی۔ ان عالمی استعماری قوتوں کے خفیہ اداروں کی دوسری بڑی ناکامی یہ ہے کہ وہ افغان نیشنل آرمی میں بھرتی کرتے وقت اس حقیقت کا کھوج لگانے میں ناکام رہے کہ افغان طالبان انتہائی خاموشی سے افغان فوج میں اپنے وفاداروں کو بھرتی کرانے میں مصروف ہیں۔ جن میں صرف جوان ہی نہیں افسران کی اچھی خاصی تعداد شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر شہروں میں افغان نیشنل آرمی کے افسران وجوان جنگ کی بجائے اپنا علاقہ افغان طالبان کے حوالے کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح کی بہت سی ویڈیوز منظر عام پر آچکی ہیں جس میں افغان فوجیوں کو حملہ آور اپنے ہم وطن طالبان کے ساتھ ہتھیار ڈالنے سے پہلے دوستانہ انداز میں بغل گیر ہوتے ،ایک دوسرے کیلئے خیر سگالی کا اظہارکرتے اور مشترکہ طور پر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ 
اس تحریر کی اشاعت تک افغانستان میں کیا صورت حال بنتی ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ کم از کم افغانستان کی حدتک بری طرح ناکامی سے دوچار ہوچکا ہے۔ امریکی عوام سوال کرنے لگے ہیں کہ ان کے ٹیکسوں سے افغانستان پر خرچ کئے جانے والے لگ بھگ تین ٹریلین ڈالروں کا حساب دیا جائے اور بتایا جائے کہ یہ ڈالر کہاں خرچ ہوئے ؟ جس افغان فوج کے بارے میں امریکی عوام کو بتایا جاتا رہا ہے کہ اس کا شمار دنیا کی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج میں ہوتاہے ،جو اپنے ملک کے دفاع کی مکمل استعداد رکھتی ہے ۔ وہ فوج افغان طالبان کے سامنے ہر صوبے میں کیوں ڈھیر ہوتی چلی جارہی ہے ؟اس قدردولت لٹانے کے باوجود کابل میں حالت یہ ہے کہ قندوز ودیگر شہروں سے پناہ کیلئے آنے والے ہزاروں افغان بھوک و پیاس سے بلک رہے ہیں ۔ افغان حکومت ان کی مددکے لیے کہیں بھی دکھائی نہیں دے رہی ۔ جب سفاکیت اور بے حسی کا یہ عالم ہوتو افغان عوام کس طرح اشرف غنی حکومت کے قائم رہنے کی دعا کرسکتے ہیں ۔ انہوںنے افغان طالبان کو ہی خوش آمدید کہنا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن