اگست کا مہینہ آن پہنچا ہے اور اب کی بار پاکستان کی پچھترویں سالگرہ کی نوید لے کے آیا ہے ۔ سوچا پاکستان کی سالگرہ ہے تو امید کا کوئی پیغام لکھوں ، لوگوں کو حوصلہ دوں ، آنے والے اچھے وقت کے انتظار کا کہوں لیکن میرے لوگو مجھے بتاوٗکہ میں کیسے اپنے سیلاب میں ڈوبے سامنے لاشوں کو رکھے سوگ مناتے چہروں کے لئے روشن صبح کا پیغام لکھوں، پا کستان کے موجودہ حالات دیکھ کر میرا دل مجھے روشنی نہیں دکھاتا ، میرا ذہن مجھے خوشیوں کے بھنگڑے نہیں ڈالنے دیتا ۔ جب پاکستان بنا تو پچاس لاکھ لوگوں نے قربانیاں کیا اس مقصد کے لئے دیں؟ کہ ایک دن آدھا ملک گنوا دیں اور پھر پچاس سال بعد دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ جائیں کیا کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی تھا کہ ایٹمی طاقت کا حامل ، دنیا کی چھٹی طاقتور ترین فوج رکھنے والا ، دنیا کی بہترین لا جواب ائیر فورس اور بحری طاقت رکھنے والا ، بائیس کروڑ لوگوں کا واحد اسلامی ایٹمی ملک ، قدرتی وسائل سے مالا مال صرف چار مہینوں میں ڈیفالٹ کے نزدیک پہنچ جائے گا ۔ پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق پاکستان میں ہفتہ وار مہنگائی 37.67 فی صد اضافہ ہوا ہے تمام ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ، ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ فیصل آباد کے ایک باپ نے دو بچیوں کو جان سے مار کے خود بھی خود کشی کر لی اس ظالم کمر توڑ مہنگائی نے سفید پوش لوگوں سے ان کی سفید پوشی کا بھرم بھی چھین لیا ۔ملک میں امن و عامہ کی صورتحال دن بدن بگڑتی جا رہی ہے وہ امن جو ہم نے ہزاروں لوگوں کی جان کی قربانی دے کر بڑی مشکل سے حاصل کیا تھا اس کے دامن پہ سوات ، وزیرستان سے آنے والی خبروں میں ایک بار پھر سے خون کے دھبے دکھائی دینے لگے ہیں۔ پاکستانیوں پہ پچھلے پچھتر سالوں پہ بیتی داستان اتنی کرب انگیز ہے کہ اس کوجملوں میں پرونا بہت مشکل کام ہے۔
آج یوم آزادی کے موقع پر دل میں ایک بوجھ سا ہے ۔ہم لوگ بے بسی سے اپنی بربادی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں اور کسی ایسے معجزے کے منتظر ہیں کہ راتوں رات کوئی مسیحا آ کر ہماری تقدیر بدل ڈالے۔ ہم میں سے ہر پاکستانی یہ ضرور سوچتا ہے کہ آخر ایسی کون سی وجوہات تھیں کہ آج ہم اس نہج کو پہنچ گئے ہیں اور ہمارے ساتھ آ زادی حاصل کرنے والا بھارت ترقی کی جانب تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، بنگلہ دیش ہم سے حالات میں بہت بہتر ہے اور چین ہمارے بعد آزادی حاصل کرنے والا ملک آج دنیا کی نئی سپر پاور بننے کے خواب دیکھ رہا ہے ۔ زندہ قومیں اپنی قسمت کے فیصلے خود لکھا کرتی ہیں کسی غیبی طاقت کا انتظار نہیں کرتیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا ادراک اور طاقت کا احساس آج اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی نہیں ہو سکا یہی وجہ ہے کہ ہماری بے بسی اور بے حسی اقتدار کے ایوانوں میں سیاست کے حواریوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کے ناچتی ہے اور ہم تماش بینوں کی طرح خود اپنی بے بسی کا تماشا دیکھتے رہتے ہیں، حکمرانوں کے ذاتی مفادات کے ہاتھوں لٹتے لٹتے ہم آج اس قدر تہی داماں ہو چکے ہیں کہ خوشی، روشنی، رنگوں، جگنووٗں کا احساس کھو بیٹھے ہیں۔ہم نے کبھی آمریت کو اپنے سر پہ بٹھایا، تو کبھی جمہوریت کی گود میں جا کے پناہ لے بیٹھے لیکن ہمیں کچھ راس نہیں آیا یہ اس ملک کی ناکامی نہیں ہے بلکہ ہماری ناکامی ہے کہ اقتدار کی مسند میں ہم نے ہمیشہ جنہیں بھی بٹھایا وہ سب کے سب کرسی کے لالچی، اقتدار کے بھوکے اور بدیانت نکلے۔ قصور اس لئے ہمارا ہے کہ ہم نے ان کے وعدوں پر اعتبار کیوں کیا، ایک دفعہ ان کے ہاتھوں لٹنے کے بعد بھی ان کی باتوں میں پھر سے آ گئے اور اب ایک دفعہ پھر اپنے لٹنے کا ماتم کر رہے ہیں۔
ہم کب تک مہنگائی، بے روزگاری، لوڈ شیڈنگ اور لا قانونیت کا عذاب یوں ہی بھگتتے رہیں گے کب تک سیاہ کو سفید ثابت کرنے والوں پر اعتبار کرتے رہیں گے۔ ہم عوام ایک طاقت ہیں، ہمیں اپنی طاقت کا ادراک کرنا ہو گا۔ کبھی قومیت کے نام پہ ہمیں لڑواتے رہیں اور کبھی لسانیت کے نام پہ، کبھی مذہبی گروہ بندیاں بنیاد بنا کر آپس میں پھوٹ ڈلواتے رہیں اور کبھی صوبائیت کو ہوا دینی شروع کر دیں۔ یہ ملک صرف اور صرف پاکستانیوں کا ہے کوئی سندھی، پنجابی، پشتون، بلوچی یا مہاجر نہیں ہے۔ ہم سب کی صرف اور صرف ایک ہی پہچان ہے اور وہ ہے پاکستان، اب وہ وقت آ گیا ہے ہمیں اپنے حصے کے رنگ، رو شنیاں خود ڈھونڈنی ہوں گی۔ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود اپنے ہاتھ میں لینا ہو گا۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ:
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گذیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر چلے تھے
یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
ابھی گرانی شب میں کمی نہیں آئی نجات دیدہ و دل کی گھڑی نہیں آئی چلے چلو (آہ !آزادی کے پچھترسال گزرجانے کے باوجود) وہ منزل ابھی نہیں آئی۔۔۔
٭…٭…٭
آہ ! یہ پچھتر سال
Aug 16, 2022