حقیقی آزادی کے ’’روح پرور‘‘ نظارے 

Aug 16, 2022

وطن عزیز کی ڈائمنڈ جوبلی مناتے ہوئے اخلاق و شائستگی کو بٹہ لگانے والے جشن کا آغاز تو نیشنل ہاکی سٹیڈیم لاہور میں منعقدہ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کے ’’حقیقی آزادی‘‘ والے پبلک جلسے کے اختتام پر ہی ہو گیا تھا۔ رات کی اس واردات کا ایکشن ری پلے یوم آزادی کے موقع پر 14 اگست کو دن بھر اور رات گئے تک لاہور کی شاہراہوں پر دکھائی سنائی دیتا رہا۔ 
مجھے عمران خان صاحب کا 13 اگست کی رات والا جلسہ دیکھنے کی مجبوری اس لئے لاحق ہوئی کہ خان صاحب نے اپنے اس پبلک جلسے کیلئے دو روز پہلے ہی قوم کو بتا دیا تھا کہ وہ ’’حقیقی آزادی کیسے حاصل کی جائے گی‘‘ والے اپنے منشور کی پرتیں پبلک جلسے میں ہی کھولیں گے۔ مجھے ’’حقیقی‘‘ آزادی کے حصول کے اس طریق کار کا کچھ کچھ اندازہ اس وقت بھی ہوگیا تھا جب 12 اگست کی رات اور 13 اگست کو دن بھر حکومت پنجاب کی معاونت سے سرکاری گاڑیوں‘ لوڈروں اور سیڑھیوں کے ذریعے پی ٹی آئی کے ٹائیگر لاہور کی سڑکوں کے کھمبوں اور دوسرے نمایاں مقامات پر آویزاں پاکستان کے قومی پرچم اتار کر یا قومی پرچم کے اوپر پی ٹی آئی کے جھنڈے پوری دیدہ دلیری کے ساتھ لگاتے رہے۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی یہ واردات بڑے زورشور سے موضوعِ بحث بنی رہی۔ اگر پاکستان کا قومی پرچم اتار کر اسکی جگہ پارٹی کا جھنڈا لگانے کی اس دیدہ دلیری کا مظاہرہ پارٹی قیادت کی رضامندی کے بغیر کیا جارہا ہوتا تو سوشل میڈیا پر تکیہ کرنے والی پارٹی قیادت یقیناً اس کا فوراً اور سخت نوٹس لیتی اور قومی پرچم اتارنے والوں کی سوشل میڈیا پر ہی بازپرس کرکے انہیں اس اقدام سے روک دیتی مگر پارٹی قیادت کی جانب سے کیا اس دیدہ دلیری پر کہیں ہلکا سا بھی ردعمل سامنے آیا؟ اگر نہیں تو بادی النظر میں یہی ثابت ہوا کہ ’’میں نہیں بولدی‘ میرے وچ میرا یار بولدا‘‘۔ اگر تشکیل پاکستان کی شکل میں بانیٔ پاکستان قائداعظم کی اسلامیان ہند کیلئے حاصل کی گئی آزادی سے ہٹ کر پی ٹی آئی قیادت کو حقیقی آزادی مطلوب و مقصود ہے تو جناب! اسکے حصول کی جدوجہد کا آغاز پاکستان کے قومی پرچم اتار کر انکی جگہ پی ٹی آئی کے جھنڈے لگانے سے ہی کیا جانا تھا اس لئے پی ٹی آئی کی قیادت بھلا اس دیدہ دلیری پر کیوں اپنا ردعمل ظاہر کرتی۔ یہ جانچنا ہمارے قانون دانوں اور قومی سیاسی اکابرین کا کام ہے کہ قومی پرچم اتار کر کسی پارٹی کا جھنڈا لگانے کا فعل قومی پرچم کی توہین کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں جبکہ قومی پرچم کی توہین کی ہمارے قانون میں باقاعدہ سزا بھی متعین ہے۔ 
مجھے پی ٹی آئی کارکنوں کے دیدہ دلیری والے اس فعل کی بنیاد پر یہ تجسس پیدا ہوا کہ عمران خان صاحب اپنے لاہور کے جلسہ میں حقیقی آزادی کے حصول کا کون سا طریق کار بتانے والے ہیں۔ اسی تجسس نے مجھے الیکٹرانک میڈیا پر لائیو چلنے والی عمران خان صاحب کی تقریر پوری کی پوری سننے پر مجبور کیا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پر محیط اس تقریر میں خان صاحب نے بیرونی سازش والے اپنے بیانیے سے متعلق وہ ساری باتیں دہرائیں جو وہ ہر تقریر میں کرتے ہیں‘ مگر حقیقی آزادی کیا ہے اور کیسے حاصل کی جائیگی‘ اس کا سرا انکی پوری تقریر میں کہیں پر بھی میرے ہاتھ نہ آسکا۔ انکی تقریر میں جو نئی بات تھی وہ یہی تھی کہ میں امریکہ کیخلاف ہرگز نہیں ہوں اور بھلا میں کیوں افواج پاکستان کو کمزور ہوتا دیکھوں گا۔ انکے بیانیے کے حوالے سے انکی گزشتہ دو ماہ کے دوران کی تقریروں کا جائزہ لیں تو امریکہ اور افواج پاکستان کے حوالے سے لاہور جلسے والی تقریر میں ان کا موقف سیدھا سیدھا یوٹرن نظر آتا ہے۔ شاید حقیقی آزادی کے حصول کا ایک یہ بھی راستہ ہو۔ مگر انکے بیانیے کے نتیجہ میں انکے حامیان کے گرم ہوئے جذبات کو اب کیسے یوٹرن حاصل ہوگا۔ انہوں نے اپنے لیڈر کے یوٹرن پر مایوسی کے قالب میں ڈھلتے اپنے جذبات جلسہ کے اختتام پر بے قابو ہونے دیئے۔ اگرچہ عمران خان صاحب نے جلسہ کے اختتام پر جلسہ کے شرکاء کو نرم خوئی کے ساتھ یہ تلقین کی تھی کہ وہ جلسہ گاہ سے نکلتے ہوئے کسی قسم کی بھگدڑ پیدا نہ کریں اور صبر و سکون کے ساتھ قطاریں بنا کر باہر نکلیں مگر انکی یہ تلقین کسی کام نہ آئی اور جلسہ گاہ میں موجود منچلوں نے جو پی ٹی آئی کے کلچر کو بڑھاوا دینے میں کہیں کوئی کسر نہیں چھوڑتے‘ بالخصوص خواتین کو اپنے نرغے میں لے کر اپنے جذبات کی تسکین کے راستے ڈھونڈنا شروع کر دیئے۔ ان کملائی‘ مرجھائی‘ شرمائی بے چاری خواتین کیلئے منچلوں کی بدتمیزی سے خود کو بچانے کیلئے کہیں کوئی جائے پناہ نظر نہ آئی اور وہ بے بس ہو کر رونے اور چیخیں مارنے لگیں۔ جناب! یہ کلچر تو پی ٹی آئی کے 2014ء والے دھرنے سے ہی چل رہا ہے اور اسی کلچر نے پارٹی قیادت کو حقیقی آزادی کے تصور سے روشناس کرایاہے۔ اگر عمران خان صاحب کے جلسے کا عنوان ہی حقیقی آزادی رکھا گیا ہو تو پھر ’’حقیقی آزادی‘‘ کے عملی مظاہرے پر معترض ہونے والے بھلا  ہم ہوتے کون ہیں۔ حقیقی آزادی کے اس تصور نے ہی تو وطن عزیز کی ڈائمنڈ جوبلی پر آزادی کا جشن منانے والے منچلے نوجوانوں کو 14 اگست کے طلوع ہونیوالے سورج کی کرنوں کے ڈوبنے اور پھر 15 اگست تک پھیلی چاند کی چاندنی کے مدھم ہونے تک خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی انتہاء تک جا پہنچنے کا آزادانہ موقع فراہم کیا۔ آزادی کا جشن منانے کیلئے یوم آزادی پر صرف باجے ہی نہیں بجے‘ بھوکے‘ ترستے نوجوانوں کے ہاتھوں خواتین کے ساتھ بدتمیزی‘ ناشائستگی اور بے ہودگی کے دل فگار مناظر بھی فضا کو گدلا کرتے رہے۔ 
گزشتہ سال مینار پاکستان پر ایک خاتون ٹک ٹاکر کے ساتھ ہجوم کی جانب سے ہونیوالی بے ہودگی نے پوری قوم کا سر شرم سے جھکایا تھا جبکہ اس بار قومی پرچم اتار کر پارٹی کے جھنڈے لگانے کے ’’تڑکے‘‘ کے ساتھ خواتین سے بے ہودگی کے مناظر پی ٹی آئی کے جلسے سے نکل کر شاہراہوں اور دوسرے پبلک مقامات تک پھیل گئے۔ اگر یہی حقیقی آزادی کا تصور ہے تو بھائی صاحب! دامن کو ذرا دیکھ‘ ذرا بند قبا دیکھ۔ حقیقی آزادی کا یہ تصور ہمیں مادر پدر آزاد کلچر کے سمندر میں ڈبو کر ہی رہے گا کیونکہ: 
حمیت نام تھا جس کا‘ گئی تیمور کے گھر سے 

مزیدخبریں