یوم آزادی گذر گیا۔ یہ یوم آزادی بھی جہاں بہت سی پریشانیوں اور خدشات کے ساتھ گذرا ہے وہیں اس یوم آزادی کے موقع پر بھی ہمیشہ کی طرح ایک امید ضرور ہے اور وہ امید یہ ہے حالات ضرور بدلیں گے۔ اچھا وقت ضرور آئے گا۔ اس ملک کے لیے قربانیاں دینے والوں اور اس ملک کے اچھے دنوں کی امید رکھنے والوں کے خوابوں کو تعبیر ضرور ملے گی۔ یہی وہ امید ہے جو ہر سال چودہ اگست یا پھر ماہ آزادی میں نظر آتی ہے۔ یہی وہ خواب ہے جو پورا سال بالعموم اور ماہ آزادی میں بالخصوص دیکھتا ہوں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ آزادی کے لیے ہمارے آباو اجداد نے قربانیاں دیں لیکن اس کے بعد بھی لوگوں نے ملکی تعمیر و ترقی کے لیے بہت کام کیا ہے۔ ملکی مفادات کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ ذاتی مفادات کو قربان کیا ہے اور مشکل ترین حالات میں ملکی مفاد کو مقدم رکھا ہے۔ یہ لوگ بھی ہمارے ہیروز ہیں۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔ حکومت ہر سال نجانے کس کس کی خدمت کتنے والوں کو ایوارڈ عطاء کرتی ہے اس فہرست میں ان لوگوں کو بھی شامل کیا جانا چاہیے جنہوں نے ملی خدمت کے لیے تکالیف برداشت کی ہیں۔ بہرحال اس یوم آزادی پر پاکستان کے صدر عارف علوی نے سیاسی باتیں کر کے سیاسی وفاداری کا ثبوت تو دیا ہے حالانکہ انہیں ملک کی وفاداری کو ترجیح دینا چاہیے تھی۔ ملک کے صدر کی حیثیت سے کم از کم یوم آزادی پر بات کرتے ہوئے یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ اس اہم موقع پر ان کی باتوں سے مخصوص سیاسی سوچ کا اظہار نامناسب ہے۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کہتے ہیں کہ "سیاستدان عفو و درگزر کا راستہ اپناتے ہوئے نفرتوں کے بجائے محبتوں کو فروغ دینا پڑے گا۔آئین، قانون اور میرٹ کی بالادستی کے لیے قربانیاں دی گئیں، آج بھی ہمارے فوجی اور سویلینز پاکستان کے لیے مسلسل شہادت دے رہے ہیں، ان قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں، وطن کے دفاع اور سلامتی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔" جناب صدر بہت واضح مثال ہے کہ لڑائی کے بعد یاد آنے والا "مکا" اپنے ہی چہرے پر رکھنا چاہیے۔ آپ بڑے منصب پر ہیں آپ کے لیے ایسی سخت مثالیں مناسب معلوم نہیں ہوتیں لیکن جناب صدر کیا کروں جب آپ اتنے بڑے منصب پر ہونے کے باوجود چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھتے رہیں۔ اپنے منصب کی عزت کا خیال نہ کریں۔ جب صدر کا عہدہ تقاضا کرتا ہے کہ کہ آپ جانبداری کا مظاہرہ نہ کریں غیر جانبدار رہیں آپکو اردگرد سے بروقت مشورہ بھی دیا جائے کہ ایسا نہ کریں لیکن آپ کسی کی نہ سنیں اور ایک ہی سوچ کو فروغ دیتے رہیں۔ جب آپ کی جماعت کو عفو و درگزر کا مشورہ دیا جائے تو لوگوں کو اسمبلیوں سے باہر پھینکنے کی باتیں کریں، سب کو چور اور ڈاکو کہتے ہیں، سب کی پگڑیاں اچھالتے رہیں، جب آپ کھ پسندیدہ لوگ اقتدار میں ہوں اور ناپسندیدہ نشانے پر ہوں اس وقت کوئی عفو و درگزر کا مشورہ دے تو اسے این آر او کے طعنے سننے کو ملیں، اسے بھگوڑا کہا جائے، ڈرپوک اور مفاد پرست کہا جائے کیا اس وقت عفو و درگزر سے کام نہیں لیا جا سکتا تھا۔ آج کوئی آپ ہے بیان کو این آر او کی درخواست تو نہیں کہہ رہا لیکن آپ کو یوم آزادی پر فریقین کو سننے والی بات کرنے کہ کیا ضرورت تھی۔ کیا آپکی گفتگو سے تاثر پیدا نہیں ہو گا کہ کسی فریق کو سنا نہیں جا رہا، کسی کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی ہو رہی ہے۔ جناب صدر ان ساری باتوں کے سیاسی حوالے ہیں۔ آپ نے اتحاد کا پیغام دیتے ہوئے نفرتیں پھیلانے والا کام کیا ہے۔ آپ کس فریق کی بات کسی کو سنانے چاہتے ہیں۔ اگر آپ کا مطلب چیئرمین پی ٹی آئی ہیں تو کیا ان کے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت نہیں ہیں کیا انہیں دیگر سیاست دانوں کی طرح عدالت نے سزا نہیں سنائی کیا انہیں بھی دیگر سیاست دانوں کی طرح اپنے مسائل حل کرنے کے لیے عدالتوں کے سامنے پیش نہیں ہونا چاہیے۔ نو مئی کو ملک میں آگ لگا دی گئی ریاستی و دفاعی اداروں پر حملے ہوئے یادگاروں کو نقصان پہنچایا گیا کیا اس وقت کسی فریق سے زیادتی نہیں ہو رہی تھی۔ کیا اس وقت وہ فریق جس کی آپ آج بات کر رہے ہیں کچھ سننے کو تیار تھا۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جو بویا ہے وہ کاٹیں۔ آپ کے عہدے کا تقاضا ہے کہ غیر جانبداری کا مظاہرہ کریں اور بہتر یہی ہو گا کہ ایسی باتیں بند کمروں میں متعلقہ افراد سے کیا کریں۔ پی ٹی آئی سے جڑے لوگوں کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں آج تک یہ علم نہیں ہوا کہ کب کہاں کیا اور کتنا بولنا ہے۔ لازم نہیں کہ آپ لگ بھگ پانچ سال تک صدر پاکستان رہیں اور یہ سیکھ جائیں اگر آپکا بنیادی طور پر سیاسی تعلق پی ٹی آئی سے ہے تو پھر مشکل ہے کہ کچھ سیکھ جائیں۔نگران سیٹ اپ آ رہا ہے وزیراعظم آ چکے ہیں۔ صوبوں میں نگران ہی ہوں گے۔ اس دوران سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا عام انتخابات آئیں میں درج مقررہ مدت میں ہوں گے یا نہیں ہوں گے۔ باخبر دوست بتاتے ہیں کہ آئین کا احترام اپنی جگہ لیکن ملک کی ضرورت پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنا مشکل ہو گا اور بظاہر قومی مفاد انتخابات کے بروقت انعقاد نہ ہونے میں چھپا ہوا ہے اس لیے بروقت انتخابات کے خواب دیکھنا چھوڑیں اور حقیقت کی دنیا میں آئیں۔ ابھی محرم الحرام ہے رمضان المبارک میں خاصا وقت ہے اگر انتخابات ہوتے ہیں تو اس کے سب سے پہلے مثالی وقت آئندہ برس رمضان المبارک ہے۔ اس سے پہلے عام انتخابات کا انعقاد ذرا مشکل ہے۔ اس کے لیے آپ بہت دلائل پیش کر سکتے ہیں۔ اس سے پہلے عام انتخابات کا انعقاد بظاہر مشکل ہے اور اگر رمضان المبارک تک انتخابات ہوتے بھی ہیں تو اس کی وجہ ہمارے اندرونی حالات یا کسی بھی قسم کا دباؤ ہرگز نہیں ہو گا۔ پاکستان نے اپنے دوستوں اور عالمی اداروں سے اس انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے بات چیت کی ہوئی ہے۔ یقینا کچھ وعدے بھی ہوں گے۔ پاکستان عالمی اداروں اور اپنے دوست ممالک کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھے گا ویسے اگر ملک کے سیاسی حالات دیکھیں تو یہ انتخابات کی اجازت نہیں دیتے۔ پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام کی ضرورت ہے اور گذشتہ چند ماہ کے دوران جس تیزی کے ساتھ چیزیں بدلی ہیں اور معیشت کمزور ہوئی ہے۔ سیاسی درجہ حرارت بڑھ کر نفرت میں بدلا ہے اسے کم کرنے کے لیے کچھ دیر اقتدار کا کھیل بند ہی رہے تو بہتر ہے۔ کیونکہ جو بھی ہارے گا وہ جیتنے والے کو قبول یا تسلیم نہیں کرے گا ان حالات میں استحکام کی صرف بات ہو سکتی ہے۔ استحکام آ نہیں سکتا۔ بہرحال نگران حکومت کے لیے چیلنج ضرور ہے کہ وہ کم از کم روزمرہ کے معاملات کو بہتر انداز میں کیسے چلاتے ہیں۔ یوم آزادی گذرا ہے اگر جھوٹے جھوٹے نعرے اور بیانات سے نکلیں تو عملی زندگی میں تشریف لائیں ملک کو ہماری نیک نیتی سے کی گئی کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
اس سے پہلے کہ بے وفا ہو جائیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
تو بھی ہیرے سے بن گیا پتھر
ہم بھی کل جانے کیا سے کیا ہو جائیں
تو کہ یکتا تھا بے شمار ہوا
ہم بھی ٹوٹیں تو جا بجا ہو جائیں
ہم بھی مجبوریوں کا عذر کریں
پھر کہیں اور مبتلا ہو جائیں
ہم اگر منزلیں نہ بن پائے
منزلوں تک کا راستا ہو جائیں
دیر سے سوچ میں ہیں پروانے
راکھ ہو جائیں یا ہوا ہو جائیں
عشق بھی کھیل ہے نصیبوں کا
خاک ہو جائیں کیمیا ہو جائیں
اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے
ایسے لپٹیں تری قبا ہو جائیں
بندگی ہم نے چھوڑ دی ہے فراز
کیا کریں لوگ جب خدا ہو جائیں