"اور اب اکیلے پھر رہے ہیں"

Aug 16, 2023

نصرت جاوید

اپریل2022ء  میں عمران حکومت کی فراغت سے تقریباََ چار ماہ قبل مجھے ایک شادی کی تقریب میں شریک ہونا پڑا۔اس تقریب کے دولہاپنجاب کے ایک پرانے سیاسی گھرانے کے فرزند تھے۔ یہ گھرانہ برطانوی دور سے سیاست سے وابستہ ہے۔زرعی زمینوں سے صنعت کاری کی جانب راغب ہونے کے بعد اس کے رشتے اور واسطے پاکستان کے تقریباََ تمام صوبوں میں پھیل چکے ہیں۔1990ء کی دہائی سے یہ گھرانہ مسلم لیگ (نون) کے ساتھ بڑھک بازی کئے بغیر ثابت قدمی سے کھڑا ہے۔ 
بہرحال میں اس تقریب میں شرکت کے لئے میزبانوں سے روایتی سلام دْعا اور مصافحے کے بعد مہمانوں سے بھرے ہال میں داخل ہوا تو مختلف وقفوں سے مجھے مسلم لیگ کے تین سرکردہ افراد ہوٹل کی لابیوں میں لے جاکر نسبتاََ تنہا کونوں میں کھڑے سرگوشیوں میں مصروف ہوگئے۔ ان میں سے دو افراد کو 2018ء کے انتخابات کے قریب مختلف مقدمات میں ملوث کردیا گیا تھا۔ تیسرے صاحب سنگین مقدمات سے بچے رہنے کے باوجود قومی اسمبلی میں لوٹ نہ پائے۔ تینوں ہی تحریک انصاف کے نامزد کردہ امیدواروں سے ہار گئے تھے۔اس برس کا انتخاب ہارجانے کے باوجود انہیں کامل یقین تھا کہ اپنے حلقوں میں مسلسل اور سرگرم موجودگی کی بدولت وہ آئندہ انتخاب بآسانی جیت جائیں گے۔ ان کی دانست میں مہنگائی اور پنجاب میں بزدار حکومت کے ’’کارنامے‘‘ ان کی جیت یقینی بنارہے ہیں۔
آئندہ انتخابات میں اپنی جیت یقینی تصور کرنے کے باوجود وہ مگر گھبرائے ہوئے تھے۔وہ تینوں رہ نما جن سے میری گفتگو ہوئی مسلم لیگ (نون) کے ’’فیصلہ ساز‘‘ یا قیادت کے قریب ترین افراد میں شمار نہیں ہوتے تھے۔ ان تک ’’اْڑتی اْڑتی خبریں‘‘ مگر یہ پہنچ رہی تھیں کہ آصف علی زرداری مبینہ طورپر ’’مقتدر قوتوں کے ا شارے پر‘‘ مسلم لیگ (نون) کی قیادت کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کو مائل کررہے ہیں۔اپنے پاس پہنچی ’’خبر‘‘ کی وہ مجھ سے تصدیق کے طلب گار تھے۔ایمان داری سے انہیں سمجھاتا رہا کہ میں اب متحرک رپورٹرنہیں ہوں۔ عمران حکومت مجھے ٹی وی سکرینوں پر دیکھنا نہیں چاہتی۔ گوشہ نشین ہوا ہفتے کے پانچ دن ’’نوائے وقت‘‘ کے لئے یہ کالم لکھتا ہوں۔ جن دنوں قومی اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہو تو گاڑی چلاکر وہاں پہنچ جاتا ہوں اور پریس گیلری میں بیٹھ کر ایوان میں جاری کارروائی کا مشاہدہ کرتا ہوں۔اس کے بعد گھر لوٹ کر ’’دی نیشن‘‘ کے لئے پریس گیلری لکھ دیتا ہوں۔سیاست میں ’’فیصلہ ساز‘‘ قیادتوں سے اب اتفاقاََ ہی سرسری ہیلو ہائے ہوجاتی ہے۔گزشتہ چند روز سے البتہ مسلسل پارلیمان ہائوس جانے کی وجہ سے مجھے بھی اندازہ ہورہا ہے کہ عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاری ہورہی ہے۔
مجھ سے گفتگو کرنے والوں کوگماں تھا کہ مسلم لیگ (نون) کے فیصلہ ساز حلقے میری رائے کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔انہوں نے نہایت پریشانی سے مجھ سے تقاضہ کیا کہ میں ان کی قیادت سے ازخود رابطے کے بعد انہیں سمجھانے کی کوشش کروں کہ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے ہٹانے کی تجویز ان کی جماعت کے لئے Trapیعنی ’’سازش‘‘ ہے۔ وہ اس سے ہر صورت بچیں۔عمران حکومت نے پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرلی تو اس کے نامزد کردہ امیدوار ووٹروں کو منہ دکھانے جوگے نہیں رہیں گے۔ مسلم لیگ (نون) نے عمران حکومت کو ہٹاکر خود اقتدار سنبھال لیا تو آئندہ انتخابات کے دوران اس کے نامزد کردہ امیدواروں کے ساتھ بھی ’’ویسا‘‘ ہی سلوک ہوگا۔
تینوں مہمانوں کی تشویش بھری گفتگو کو میں نے پرخلوص توجہ سے سنا۔ان کے خدشات غور سے سننے کے بعد عاجزی اور انکساری سے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ بطوررپورٹر مجھے ’’خبریں‘‘ تلاش کرنے کی عادت رہی ہے۔سیاسی قیادتوں کو ’’مشورے‘‘ دینے کی علت مگر کبھی لاحق نہیں رہی۔ان کے بیان کردہ خدشات کو البتہ میں سنجیدگی سے لے رہا ہوں اور اپنے لکھے کالموں میں انہیں تفصیل سے بیان کرتا رہوں گا۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری یہ گواہی دے سکتے ہیں کہ 2022ء کا آغاز ہوتے ہی میں تواتر سے اس کالم میں ان کو اْکتادینے کی حد تک دہراتا رہا کہ عمران حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔سچی بات یہ بھی ہے کہ مجھے یہ فریاد بارہا دہرانے کے راستے پر ابتداََ مسلم لیگ (نون) کے ان فکرمند رہ نمائوں نے دھکیلا تھا جو شادی کی ایک تقریب میں مجھے اتفاقاََ مل گئے تھے۔ان کی انگیخت نے مجھے آنکھیں اور کان کھلے رکھنے کو مجبور کیا اورمیں نسبتاََ صاف ذہن کے ساتھ سیاسی منظر نامے کے مشاہدے کے قابل ہوسکا۔ 
عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانے کی تجویز کے خلاف تواتر سے لکھی میری رائے نے مسلم لیگ (نون) کے چند ’’اعلیٰ سطح‘‘ کے رہ نمائوں کو ناراض کردیا۔فروری اور مارچ 2022کے مہینوں میں وہ روزانہ کی بنیاد پر اسلام آباد کے سیاسی اعتبار سے بااثر تصور ہوتے گھروں میں منعقد ہوئے ’’بڑے کھانوں‘‘ میں شریک ہورہے تھے۔ ان میں سے چند کھانوں میں مجھے بھی مدعو کرلیا گیا۔ نام کیا لینے، محض یہ لکھ دینا ہی کافی ہے کہ حال ہی میں گھر گئی شہباز حکومت کے اہم ترین وزراء بھی مذکورہ د عوتوں میں شریک ہورہے تھے۔ ان دنوں اپوزیشن میں ہونے کے باوجود ان کے چہرے پْرامیدی سے مالا مال نظر آتے۔ ایک دو افراد تو اپنی بدن بولی سے ’’وزیر شذیر‘‘ بھی لگنا شروع ہوگئے تھے۔ایسے ہی ایک ’’ممکنہ وزیر‘‘ اتفاق سے یہ کالم بھی اکثر پڑھ لیتے ہیں۔کھانے کی ایک دعوت میں ملے تو ایک کونے میں لے گئے۔ نہایت ادب سے استفسار کیا کہ میں عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی مخالفت کیوں کررہا ہوں۔ میں نے وجوہات گنوادیں تو انہوں نے محض یہ کہا کہ ان کی جماعت تک ’’یہ اطلاع پہنچی ہے‘‘ کہ 29اپریل 2022ء گزرجانے کے بعد عمران خان کسی بھی وقت فیض حمید کو آرمی چیف نامزد کرسکتے ہیں۔جون 1991ء  میں نواز حکومت نے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو تین ماہ قبل اسی عہدے کے لئے نامزد کردیا تھا۔اس ’’نظیر‘‘ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایسا ہی قدم اب کی بار وہ ’’چھ ماہ قبل‘‘ بھی اٹھاسکتے ہیں۔
ان صاحب سے گفتگو سے قبل مجھے ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ عمران حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی ’’اصل وجہ‘‘ کیا ہے۔اس وجہ کی بابت مزید کھوج لگایا تو دریافت ہوا کہ مسلم لیگ (نون) کو قائل کردیا گیا ہے کہ اپنی پسند کا آرمی چیف نامزد کردینے کے بعد عمران خان قبل از وقت انتخاب کی تیاری شروع کردیں گے۔ احتساب بیورو مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کوگرفتار کرلینے کے بعد تحریک انصاف کے لئے آئندہ انتخاب کی بدولت ’’دو تہائی اکثریت‘‘ یقینی بنادے گا۔ وہ اکثریت مل گئی تو ’’پارلیمانی نظام صدارتی بنادیا جائے گا‘‘ جس کے نتیجے میں عمران خان ’’آئندہ دس برس‘‘ تک ملک کے طاقت ور ترین صدر رہیں گے۔
ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں نے مذکورہ بالا خدشات ایک لمحے کے لئے بھی سنجیدگی سے نہیں لئے۔ ہمارے ہاں ’’طاقت ور صدر‘‘ کا تصور نام نہاد پڑھے لکھے لوگوں کی اکثریت کو یقینابہت اچھا سنائی دیتا ہے۔ایسے ’’صدور‘‘ تاہم مارشل لاء کی بدولت ہی ہم پر مسلط ہوئے تھے۔ ان کے اقتدار کی مدت مگر اوسطاََ دس سال سے زیادہ نہ بڑھ سکی۔ ایوب خان،جنرل ضیاء اور پرویز مشرف کے ادوار ’’صدارتی نظام‘‘ کی بے ثباتی کا واضح اظہار ہیں۔ مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہ نمائوں کی اکثریت مگر اس جانب توجہ دینے کو تیار نہیں تھی۔اقتدارسنبھالنے کو اتاولے ہورہے تھے اور اب ’’اکیلے پھر رہے ہیں…‘‘

مزیدخبریں